جیومکھی۔۔۔!! لائوڈ اسپیکر، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
میرے ملک کی ایک عجیب ہی شان ہے ، یہاں اچانک کوئی نا کوئی شے،واقعہ،مقام،حادثہ ،تنازعہ....یہاں تک کہ حشرات الارض بھی غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتے ہیں....اب ذرا مکھی کو ہی لے لیجیے ....یکایک اُس کے تذکرے جلی سرخیوں،بریکنگ نیوز کے لالم لال ٹکرز جنہیں عرفِ عام میں ”لال پٹی“ بھی کہا جاتا ہے ،بزبانِ اینکرز صاحبان،درمیانِ ہر خاص و عام بلکہ نکڑ کی پلیا اور گلی کے چبوتروں پر بھی یوں ہو رہے ہیں کہ گویا اُسے اگلے برس امن کے نوبیل ایوارڈ کے لیے نامزد کردیا گیا ہو یا پھر سندھ کے نئے گورنر کے لیے اُسی کا نام زیرِغور ہو....مکھی نے اپنی کمزور جسامت کے باوجود ”طاقت وروں“ کو ہلا کر رکھ دیا ہے....اِس سے پہلے یہ اعزاز صرف ”مچھر“ کو حاصل تھا جس نے نمرود کے دماغ میں گھس کر اُس کابھیجا کھا کھا کر اُسے اِس قدر اُلجھا ڈالا تھا کہ ایک دِن اُس نے اپنے خادم سے تنگ آکر کہا کہ میرے سر پر زور سے کوئی ایسی شے مار کہ مچھر تڑپ کر اندر ہی اندر مر جائے....وفادار ملازم یا شاید مدتوں سے تنگ آئے ”خاموش انقلابی“ کو کچھ اور نہ سوجھا تو ایک بھاری بھرکم گُرز اُٹھالایا اور اُسے سر پر مارنے سے پہلے خدائی دعوے دار (معاذ اللہ) سے ایک بار پھر پوچھا ”حضور! دیکھ لیجیے!! کیا سر کے لیے یہ صحیح رہے گا؟؟“....پہلے ہی سے جھلائے ہوئے نمرود نے چِلاّ کر کہا ”ابے سنتا نہیں ہے کیا؟ جب تجھے کہہ دیا ہے کہ مار تو مار....“اور یوں برسوں سے غصے کو سینے میں دبائے ہوئے ”وفادار“ نے باقاعدہ القاعدہ کی طرح سر کا ٹھیک نشانہ لے کر گُرز یوں مارا کہ نمرود کا سرہمارے پروگرامز کی ریٹنگ کی طرح الحمد للہ پاش پاش ہوگیااور وہ یہ بھی نہ کہہ سکا ”یار! اِتنی زور سے تو کہا بھی نہیں تھا“....
خیر مچھر کا توتب بھی کچھ نہ بگڑا کیونکہ وہ تو اللہ کے حکم سے دماغ میں جا گھسا تھا اور روایات کے مطابق مچھروں کے لشکر میںسب سے کمزور،بیمار اور لاغر مشہور تھالہٰذا نمرود کا دماغ کھلتے ہی اُسے بھی آزادی مل گئی اور وہ رب کی تسبیح پڑھتا ہوا یہ جا وہ جا....تاہم اب ہوا کچھ یوں ہے کہ مچھر کی اِس مقبولیت سے خائف بعض حشرات الارض کے ”خفیہ سرپرستوں“ نے اپنی پسند کے حشرات کو مقبول کرانے کے لیے بے خوف وخطر اُن کا نام لینا شروع کردیا ہے حالانکہ اُن کی اِس بے احتیاطی کے سبب اِس بات کے شدید خطرات لاحق ہیں کہ جن حشرات کا نام لیا جارہا ہے کہیں اُن کو دہشت گرد نقصان نہ پہنچا دیں یا کوئی ٹارگٹ کلر گھات لگا کر اُن پر ایسا حملہ نہ کردے جو جاں لیوا ثابت ہو....اِس وقت سب سے زیادہ تکلیف میں ”مکھی“ ہے جس کا پہلی بار وزیر اعظم نواز شریف نے رواروی میں ذکر کر کے انجانے میں ہی اپنے آپ کو ”راوی“ بنا لیا ہے ....یہ الگ بات ہے کہ وہ ویسے بھی ”اولڈ راوین“ ہی میں شمار کیے جاتے ہیں....اُنہوں نے مکھی کی موت کو ہڑتال سے جوڑ کر جہاں مکھیوں کی برادری میں ایک ہلچل سی پیدا کردی وہیں الطاف بھائی بھی ناراض ہوئے بنا نہیں رہ سکے....بہت دِنوں بعد اُن کی آواز سنائی دی،لیکن گھن گرج میں ذرہّ برابر بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے لہٰذا یہ سوچنا بھی سوچ کے لیے ارزاں ہے کہ خدا نخواستہ وہ بیمار ہیں یا اُن پرخطاب کے معاملے پر کوئی ”پابندی“ عائد ہے ....فی الوقت الطاف بھائی کویہ صدمہ ہے کہ ہڑتال کا تعلق مکھی کی موت سے کیوں جوڑا گیا؟مکھیاں تو دن بھر میں ایک سائنسی تحقیق کے مطابق کروڑوں کی تعداد میں مر جاتی ہیں تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہڑتال جیسے ”سنجیدہ عمل“ کو مکھیوں کی اموات کے ساتھ تشبیہ دی جائے ....میاں صاحب کا مقف البتہ بالکل مختلف ہے ،وہ اصل میں گورنر صاحب کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ مکھی کے مرنے پر ہڑتال نہیں ہونی چاہیے،ممکن ہے کہ اُس دن گورنر ہاوس میں کچھ مکھیاں گرمی کی شدت سے انتقال کر گئی ہوں اور اُن کے سوگ میں تقریب کے بعد ”کھانے“ کا مناسب انتظام نہ ہوا ہو ....اور اِسی کو ”ہڑتال“ سے تعبیر کرتے ہوئے میاں صاحب نے عشرت بھائی کو نصیحت کی ہو کہ مکھی کی موت اپنی جگہ لیکن اِس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ مہمانوں کو کھانا ہی نہ ملے اور آپ ہڑتال کردیں....
اِس تمام تر صورتِ حال میں ہمارے میٹھے،ٹھنڈے اور مسکراتے وزیر اطلاعات نے سب سے بہترین نظریہ اختیار کیا ہے ....رشدو ہدایت سے مکمل آراستہ رشید جو کہ شروع ہی سے ”پرویز“ ہیں اُنہوں نے کیا خوب فرمایاہے،بھئی میں تو اُن کی معاملہ فہمی اور سلجھا کے انداز کا قائل ہوگیا ہوں....بڑی ہی خوب صورتی سے پہلے تو اُنہوں نے مکھیوں کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے اور پھر یہ بھی بتلادیا ہے کہ میاں صاحب کو جس مکھی سے شکایت ہے یہ وہ مکھی ہے ہی نہیں کہ جس کے تذکرے پر الطاف بھائی کی دل آزاری ہوئی ہے ....اُن کے خیال میں الطاف بھائی سے پیار کرنے والے تو شہد کی مکھیوں کی طرح اُن سے عقیدت کی طرح چمٹے رہتے ہیں جو اُنہیں کبھی چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے بلکہ اگر کوئی عقیدت کے اِس ”چھتےّ“ سے تھوڑا سا بھی شہد ”چُرانے“ کی کوشش کرتا ہے تو وہ اُس ڈکیٹ کو بھرپور جواب دیتے ہیں....ظاہر ہے کہ الطاف بھائی نے برسوں کی محنت کے بعد یہ چھتا تعمیرکیا ہے جس میں اُن سے پیار کرنے والے اپنے اپنے حصے کا شہد جمع کرتے رہتے ہیں اِسی لیے وزیر اطلاعات کے بقول الطاف بھائی کے چاہنے والے میٹھے ہیں کڑوے نہیں....اِس بھرپور وضاحت کے باوجود یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پھر وہ کون سی مکھی تھی جسے راتوں رات شہرت دلانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ،کیوں اُس کا تذکرہ ہوا؟ اور آخر کیا وجہ تھی کہ اُس کی موت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم کو دورانِ خطاب اپنا چشمہ اُتار کر کے گورنر صاحب کو دیکھنا پڑا اور یہ کہنا پڑا کہ ”کراچی میں مکھی بھی مرتی ہے تو ہڑتال ہوجاتی ہے“.... میرا خیال ہے یہ سارا کیا دھرا عشرت بھائی کا ہے ،ایک تو وہ استعفیٰ نہیں دے رہے ، دوسرے بلا کے مطمئن ہیں، تیسرے اُنہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اُن کا نام ای سی ایل میں بھی ہے یا نہیں،چوتھے وہ مسکراتے بہت ہیں،پانچویں اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا ،چھٹے وہ چکنے گھڑے کی طرح ٹس سے مَس ہونے کو تیار ہی نہیں ہیں، ساتویں اُنہوں نے ”فیلڈنگ“ بہترین سیٹ کی ہوئی ہے ،آٹھویں اُنہیں الطاف بھائی کی ناراضگی کی تمام opticsکا پہلے سے اندازہ ہے ،نویں اب اُنہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے اور دسویں وہ ایک انتہائی فرماں بردار اور مہذب انسان ہیںجو اپنے دونوں کا نوں کا بہترین استعمال کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی سنا جائے وہ اِسی لیے ہے تاکہ دوسرے کان سے نکاسی کا راستہ برقرار رہے لہٰذا وہ کانوں میں باتوں کو جمع کر کے نہیں رکھتے بلکہ ایک سے سنتے ہی دوسرے سے نکال دیتے ہیں....یعنی ایک بہترین ٹینشن فِری پیکج ہیں (ماشاءاللہ)
ویسے مجھے شک ہے بلکہ کسی حد تک یقین ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے جس مکھی کی جانب اِشارہ کیا ہے وہ ضرور مکھیوں میں کوئی ”عامل مکھی“ رہی ہوگی، اُس نے ہمیشہ سے یہ خواہش پروں میں دبائے رکھی ہوگی کہ کبھی تو کوئی انسان اُس کا نام لے،کبھی تو اُس کے چرچے ہوں،ہونٹوں پہ کبھی اُن کے میرا نام بھی آئے ....اور اِسی بنا پر اُس نے دِن رات اپنی بھنبھناہٹ سے کوئی عمل ایسا ضرور کیا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے معمول کے خطاب سے ہٹ کر آناً فاناً مکھی کہنا پڑا....سب سنا ہے کہ مکھیوں کے جتھے کے جتھے مقتول یا مرحوم مکھی کی گمنام قبر کا پتہ پوچھتے پھر رہے ہیں تاکہ اُس کی قبر پر حاضری سے کر اُسے اِس بات پر خراجِ تحسین پیش کیا جائے کہ”تم نے اپنی موت سے لفظ مکھی کو ایسا امر کیا کہ وزیر اعظم سے لے کر اِس کالم نگار تک سب ہی مکھی لکھنے ،کہنے اور اُس پر تبصرے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں....مکھی تم امرتھی ....مکھی تم امر رہو گی....جیو مکھی!!!
No comments:
Post a Comment