#LoudSpeaker "Karwa Sach.!" by #AamirLiaquatکڑوا سچ… لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر کربلا کے میدان میں سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کے لعل نے اللہ کے حضور اپنی گردنِ اطہر کٹا کر دین کی لاج نہ رکھی ہوتی تو ہم جیسوں کو کہ جو ’’ظاہر‘‘ سے متاثر ہوکر ’’باطن‘‘ پر ایمان لے آتے ہیں یہ کیسے خبر ہوتی، یہ کیونکر پتہ چلتا کہ ہر نمازی ’’عباسِ غازی‘‘ نہیں ہوتا اور سجدوں کا ڈھونگ رچا کر انسانیت کو قتل کرنے والامجاہد کے بھیس میں ’’مفسد‘‘ رب کا وفادار نہیں بلکہ دراصل احکاماتِ شریعہ کا غدار ہوتا ہے …
خبر شاید بہتوں کے لئے ’’چھوٹی‘‘ ہو مگر تاریخ بہت ’’بڑی‘‘ہے …اطلاع تو یہی ہے کہ کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک پکڑا گیا، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور طالبان کے گٹھ جوڑ سے جنم لینے والے کئی شمر، شبث، سنان اور حرملہ پکڑے گئے ، سیکورٹی اداروں نے اطمینان کا سانس بھی لیاہےاوربلاشبہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں فوج ، رینجرز اور پولیس اہل کارو ں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے …لیکن …یہ پاتال کے وہ بدبودار کیڑے ہیں جن کی نسلیں ’’اندھیروں‘‘ میں جنم لیتی ہیں جس کے سبب یہ روشنی کے دشمن بن کر ہر دور، ہر عہد اور ہر زمانے میں نکلتے رہے ہیں اور نکلتے ہی رہیں گے …اِنہوں نے سیدی ﷺ کے آسان دین میں سختی کر کے اِسے اپنے آپ پر غالب کرلیاہے اور اب اِن کے پاس سوائے جبر، تشدد اور تسلط کے فہم کے سوا شعور میں ہدایت کی کوئی کرن باقی ہی نہیں بچی ہے …ایسے میں’’رحمت‘‘ ہیں ہمارے محافظین جنہوںنے قبر کے گڑھے تک اِنکے تعاقب کا اِرادہ کررکھا ہے اور وہ اِس فرض و عہد کو پورا کرنے کی خاطر قربانیاں دینے سے بھی پیچھےنہیں ہٹ رہے … البتہ ’’جاننے والوں‘‘ کی ’’خاموشیاں‘‘ اور تماش بینی کے بے حِس مظاہرے کوفے کے کیواڑوں کی اُن کنڈیوں کی یاد ضرور دلادیتے ہیں جن کے پیچھے ’’مصلحت‘‘کے نام پر بدترین موت کا خوف چھپ کراِس وقت کے ’’ٹلنے‘‘ کا انتظار کررہا ہے …سبق دینے والے تو حق کی خاطر جان دینے کے طریقے اور ضابطے سکھا بھی گئے اور دکھا بھی گئے لیکن ’’نام لیوا‘‘ آج بھی اِس دور کے’’یزید و ابنِ زیاد‘‘سے دہشت زدہ ہیں …حسین کہنا، سننا، پڑھنا اور لکھنا تو اچھا لگتا ہے لیکن حسین کی راہ پر چلنے سے جی آج بھی کتراتا ہے …عزیمت اور رخصت کے حیلوں کے ٹیلوں کی آڑ لے کر خستہ فکر اور کمزور ایمان کو تو شایدفنا کے لئے مزید سانسوں کا تحفہ دیا جاسکتا ہے مگر بقاکی وادیوں میں خدائے لم یزل کی خوشنودی کے پروں سے پرواز کرنے والی پاک ارواح کی فہرستوں میں اِن کا کہیں نام نہیں …نام و نمود کی چمک، القابات اور لاحقوں کی وسعت اور اِن کی جلوتوں سے متاثرمریدین کے عقیدت سے جھکے ہوئے سر اِنہیں ’’حق‘‘ کہنے سے روکے رکھتے ہیں،ادب کے نام پر جان نثاروں سے اپنے جوتے اُتروا کر منبروں کی زینت بنے یہ شعلہ بیاں خطیبانِ ملت، شیخین کریمین کی عظمتوں سے لے کر رُشدانِ خلافت کے چراغوں کی لازوال قربانیوں تک، قصوں کو اپنے اپنے جُسوّں کے مطابق ’’واہ واہ ‘‘ کے شور میں ’’بھولے بنا‘‘ اختتام تک سنا تو دیتے ہیں لیکن اُن کا آخر بیان کرنے والی زبان ’’اپنے آخر‘‘ سےخوف زدہ ہونے کے بجائے ’’اعزازِ امتی‘‘ کی خلعت پہن کر اس قدر مسحور ہے کہ ’’اطاعتِ نبوی ﷺ‘‘میں ایک بھی عمل بیان کرنے سے قاصر ہے …ہاں! اپنے کسی مسلمان بھائی کے کفر پر یقین، فسق و فجور کی اسنادمرتب اور زنادیقِ اسلام کی ازخود تیارکردہ فہرست میں کس کس کا نام ہونا چاہئے ، یہ سب کرنا اِنہیں بہرحال آتا ہے اور بہت خوب آتا ہے …عورتوں کو دیکھتے ہی اپنا ’’ایمان بچانے کے لئے ‘‘ منہ پھیرکرپلٹ جانے والے یہ عظیم ’’متقیانِ وفا‘‘جنہوں نے غالباً ’’چشم تصور‘‘ ہی میں اپنے اونچے مقامات کا جنت کے اعلیٰ درجوں میں مشاہدہ فرما لیا ہے اور جو غالباً کراماً کاتبین کو بھی اپنے ’’تقوے‘‘ پر قائل کرچکے ہیں(معاذ اللہ) اب اِس ’’عطا کردہ ذمے داری‘‘ کو نبھانے میں مصروف ہیں کہ مسلک کے محافظ و ٹھیکے دار کسی بھی خطیب کو ’’تفرقے‘‘ کی پرچی بھیج کر اسلام کے دامن میں آگ کیسے لگائی جائے اور اِن کے ہاتھوں اور پیروں کا بوسا لینے والے کسی کے خلاف برانگیختہ ہوکر احادیث ِ نبوی کی عبارتوں سے رُو گردانی کیسے کریں؟ کہ ختمی مرتبت ﷺ نے کیا فرمایا(استغفر اللہ) اب یہ اہم نہیں رہا لیکن ’’مفتی صاحب‘‘ یا ’’روحانی اسکالر‘‘ یا مسجد کو اپنی ’’ریاست‘‘ سمجھ کر لاؤڈ اسپیکر پر نفرت کی گونج دار آواز میں ’’امام صاحب‘‘ کیا فرما رہے ہیں یہ زیادہ اہم ہے …چنانچہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مباحثوں،مناظروں اور فتوؤں کی گلے پھاڑ آوازوں میں کہ جہاں ’’دفاع، وضاحت اور خدماتِ سابقہ‘‘ کی چہچہاہٹ بھی حرام ہے انتہائی غیر محسوس طریقے سے ’’انتہا پسندی‘‘ کی خرخراہٹ بھی حصہ بن چکی ہے … اب کوئی معتدل نہیں، کسی کوحدِ الہی کی نورانی لکیر کے احترام کا خیال نہیں …اب یہاں کوئی ابو حنیفہؒ نہیں جو کفر کی ۹۹ علامتیں ہونے کے باوجود اسلام کی ایک نشانی ہی دیکھ کر گناہگار کو سینے سے لگالے…واللہ !یہاں کوئی شافعیؒ نہیں جوسائل سے سر جھکا کر یہ کہہ سکے کہ میں سب نہیں جانتا بس تھوڑا جانتا ہوں …مالک بن انس ؒ کی فکر بھی گم شدہ ہے جو کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرنے والے کی پیٹھ پر دُرّے کا نشان چھوڑدیا کرتی تھی …احمد بن حنبلؒ کے دروس بھی اب کسی کو یاد نہیںجن میں مومن بھائی کے خلاف فتوی سازی کو اعزاز نہیں بلکہ پیارے آقاﷺ کو اذیت دینے کا عمل کہہ کر قلم اور زبان کو رکوایاگیا ہے اور امام جعفر صادقؓ کی وہ مجلسیں بھی حافظوں سے اپنے نقوش تک کھرچ چکی ہیں جن میں اہل بیت اطہار ؓکی ادائے درگزری اور اندازِ کریمانہ کے تذکروں نے سختیوں کو نرمیوں کے پیراہن سے ڈھانپ لیا تھا …
تو پھر کیا ہوتا؟وہی ہوا جو ہونا تھا،خوارج کے ساکت سانپ میںجو اولیائے کرام کی دعوت اور تبلیغ کی ٹھنڈک سے ٹھٹھر کر اکڑا پڑا تھا اور جسے صوفیانِ بخارا و سمرقند، تابعین بغداد و حجاز اور ابدالِ ایران و ہند نے قریب المرگ کردیا تھا …اُسے فرقے پر فرقے کی برتری کی آگ اور خارج از عقائد کے فتوؤں کے شعلوں نے گرمی پہنچا کر پھر سے زندہ کردیا ہے ، آدھا کام تفرقوں کی رسی سے ایک دوسرے کو ’’بدمذہب‘‘ ہونے کے جرم میں ’’اخراج کی پھانسیاں‘‘ دے کر ہم نے خود کردیا ہے اور باقی ادھورا کام پورا کرنے کے لئے داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کا ترجمان وہ سانپ کرنے کے لئے تیار ہے جسے کبھی معین الدین چشتی ؒ تو کبھی علی ہجویریؒ کے عصائے کرامت نے شریعت محمدی ﷺ کی طاقت سے دبائے رکھااور شریعت کے تابع رہ کر طریقت کے ایسے دریا بہائے کہ نفرت کے کلبلاتے سانپ اپنے سنپولوں سمیت اُس میں بہہ کر یا تو معرفت کے سمندر میں جاگرےیا پھر دائمی قید کی تہہ میں اُن گہرے غاروں میں پھنس کر رہ گئے جہاں سے سطح نظر ہی نہیں آتی … عہدِ قدیم کے اِن خوارج کا Jurrasic Park بنانے والوں کوآپ کی تاریخ کا بھی علم ہے اور آپ کی کمزوریوںسے شناسائی بھی …یہ بخوبی واقف ہیں کہ آپ کو کہاں سے گھیرا جائے اورکن باریکیوں میں اُلجھا کر آپ کی پیٹھ تھپتھپائی جائے تاکہ اِن کے تیارکردہ عفریت’’بٹے ہوئے شکار‘‘ کو باآسانی نگلنے میں کامیاب ہوسکیں اور وہ تمام’’بدلے‘‘ بھی پورے ہوں جو مدتوں سے پھپھولوں کی شکل میں اِن کے اندر بغض و عناد کی پیپ چھوڑ رہے ہیں …
اِن کے چھوڑے ہوئے بے قابو درندوں سے جنگ صرف فوج یا رینجرز کے اہل کاروںکا کام نہیں اور نہ ہی یہ دہشت گردوں کا قانون سے ٹکراؤ ہے …یہ تو ایک باطل نظریے کی دین مصطفیﷺ کو دعوتِ مبارزت ہے جس سے صرف متحد ہوکرہی لڑا جاسکتاہے …اختلاف تو سیکڑوں برسوں سے ہے اور اختلاف تو برقرار رہے گا لیکن منبع تو بہرحال اسلام ہی ہے نا، خدانخواستہ اِسے کوئی گزند پہنچی تو کس سے مناظرہ کیجیے گا؟اِس پر وار ہوا تو کس فرقے یا مسلک کی مسجد میں پناہ لیجئے گا؟ …یہ وقت اپنے اپنے عقائد کی گتھیاں ایک دوسرے کو تھماکر اِسے سلجھانے کا ہدف دے کر تماشا دیکھنے کا نہیں بلکہ مجتمع ہوکر پوری قوت سے شدت پسندی اور تشدد کی چھریوں سے اسلام کے سینے کو زخمی کرنے والے اُن بہروپیوں کو بے نقاب کرنے کا ہے جن کا DNAنہروان کے میدان سے دریافت کرنے کے بعدافزائش کی تجربہ گاہوں سےاُنہیں وہی صورت و سیرت دے کر مسلمانوں کی جانب روانہ کیاگیاہے تاکہ دھوکا کھانے والےاِن کے دام میں آجائیں اور یہ ہمیشہ کی طرح اسلام کے ہاتھوں ہی اسلام کوکٹوائیںتاکہ مؤرخ کو وہ نادیدہ ہاتھ کبھی نظر نہ آسکیں جو خیبر میں اپنی ذلت آمیز شکست کو آج تک بھلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں…!!!
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
aamirliaquat@janggroup.com.pk
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
#JangColumn: #LoudSpeaker "Geo Makkhi...!!!" by Dr @AamirLiaquat
جیومکھی۔۔۔!! لائوڈ اسپیکر، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
میرے ملک کی ایک عجیب ہی شان ہے ، یہاں اچانک کوئی نا کوئی شے،واقعہ،مقام،حادثہ ،تنازعہ....یہاں تک کہ حشرات الارض بھی غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتے ہیں....اب ذرا مکھی کو ہی لے لیجیے ....یکایک اُس کے تذکرے جلی سرخیوں،بریکنگ نیوز کے لالم لال ٹکرز جنہیں عرفِ عام میں ”لال پٹی“ بھی کہا جاتا ہے ،بزبانِ اینکرز صاحبان،درمیانِ ہر خاص و عام بلکہ نکڑ کی پلیا اور گلی کے چبوتروں پر بھی یوں ہو رہے ہیں کہ گویا اُسے اگلے برس امن کے نوبیل ایوارڈ کے لیے نامزد کردیا گیا ہو یا پھر سندھ کے نئے گورنر کے لیے اُسی کا نام زیرِغور ہو....مکھی نے اپنی کمزور جسامت کے باوجود ”طاقت وروں“ کو ہلا کر رکھ دیا ہے....اِس سے پہلے یہ اعزاز صرف ”مچھر“ کو حاصل تھا جس نے نمرود کے دماغ میں گھس کر اُس کابھیجا کھا کھا کر اُسے اِس قدر اُلجھا ڈالا تھا کہ ایک دِن اُس نے اپنے خادم سے تنگ آکر کہا کہ میرے سر پر زور سے کوئی ایسی شے مار کہ مچھر تڑپ کر اندر ہی اندر مر جائے....وفادار ملازم یا شاید مدتوں سے تنگ آئے ”خاموش انقلابی“ کو کچھ اور نہ سوجھا تو ایک بھاری بھرکم گُرز اُٹھالایا اور اُسے سر پر مارنے سے پہلے خدائی دعوے دار (معاذ اللہ) سے ایک بار پھر پوچھا ”حضور! دیکھ لیجیے!! کیا سر کے لیے یہ صحیح رہے گا؟؟“....پہلے ہی سے جھلائے ہوئے نمرود نے چِلاّ کر کہا ”ابے سنتا نہیں ہے کیا؟ جب تجھے کہہ دیا ہے کہ مار تو مار....“اور یوں برسوں سے غصے کو سینے میں دبائے ہوئے ”وفادار“ نے باقاعدہ القاعدہ کی طرح سر کا ٹھیک نشانہ لے کر گُرز یوں مارا کہ نمرود کا سرہمارے پروگرامز کی ریٹنگ کی طرح الحمد للہ پاش پاش ہوگیااور وہ یہ بھی نہ کہہ سکا ”یار! اِتنی زور سے تو کہا بھی نہیں تھا“....
خیر مچھر کا توتب بھی کچھ نہ بگڑا کیونکہ وہ تو اللہ کے حکم سے دماغ میں جا گھسا تھا اور روایات کے مطابق مچھروں کے لشکر میںسب سے کمزور،بیمار اور لاغر مشہور تھالہٰذا نمرود کا دماغ کھلتے ہی اُسے بھی آزادی مل گئی اور وہ رب کی تسبیح پڑھتا ہوا یہ جا وہ جا....تاہم اب ہوا کچھ یوں ہے کہ مچھر کی اِس مقبولیت سے خائف بعض حشرات الارض کے ”خفیہ سرپرستوں“ نے اپنی پسند کے حشرات کو مقبول کرانے کے لیے بے خوف وخطر اُن کا نام لینا شروع کردیا ہے حالانکہ اُن کی اِس بے احتیاطی کے سبب اِس بات کے شدید خطرات لاحق ہیں کہ جن حشرات کا نام لیا جارہا ہے کہیں اُن کو دہشت گرد نقصان نہ پہنچا دیں یا کوئی ٹارگٹ کلر گھات لگا کر اُن پر ایسا حملہ نہ کردے جو جاں لیوا ثابت ہو....اِس وقت سب سے زیادہ تکلیف میں ”مکھی“ ہے جس کا پہلی بار وزیر اعظم نواز شریف نے رواروی میں ذکر کر کے انجانے میں ہی اپنے آپ کو ”راوی“ بنا لیا ہے ....یہ الگ بات ہے کہ وہ ویسے بھی ”اولڈ راوین“ ہی میں شمار کیے جاتے ہیں....اُنہوں نے مکھی کی موت کو ہڑتال سے جوڑ کر جہاں مکھیوں کی برادری میں ایک ہلچل سی پیدا کردی وہیں الطاف بھائی بھی ناراض ہوئے بنا نہیں رہ سکے....بہت دِنوں بعد اُن کی آواز سنائی دی،لیکن گھن گرج میں ذرہّ برابر بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے لہٰذا یہ سوچنا بھی سوچ کے لیے ارزاں ہے کہ خدا نخواستہ وہ بیمار ہیں یا اُن پرخطاب کے معاملے پر کوئی ”پابندی“ عائد ہے ....فی الوقت الطاف بھائی کویہ صدمہ ہے کہ ہڑتال کا تعلق مکھی کی موت سے کیوں جوڑا گیا؟مکھیاں تو دن بھر میں ایک سائنسی تحقیق کے مطابق کروڑوں کی تعداد میں مر جاتی ہیں تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہڑتال جیسے ”سنجیدہ عمل“ کو مکھیوں کی اموات کے ساتھ تشبیہ دی جائے ....میاں صاحب کا مقف البتہ بالکل مختلف ہے ،وہ اصل میں گورنر صاحب کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ مکھی کے مرنے پر ہڑتال نہیں ہونی چاہیے،ممکن ہے کہ اُس دن گورنر ہاوس میں کچھ مکھیاں گرمی کی شدت سے انتقال کر گئی ہوں اور اُن کے سوگ میں تقریب کے بعد ”کھانے“ کا مناسب انتظام نہ ہوا ہو ....اور اِسی کو ”ہڑتال“ سے تعبیر کرتے ہوئے میاں صاحب نے عشرت بھائی کو نصیحت کی ہو کہ مکھی کی موت اپنی جگہ لیکن اِس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ مہمانوں کو کھانا ہی نہ ملے اور آپ ہڑتال کردیں....
اِس تمام تر صورتِ حال میں ہمارے میٹھے،ٹھنڈے اور مسکراتے وزیر اطلاعات نے سب سے بہترین نظریہ اختیار کیا ہے ....رشدو ہدایت سے مکمل آراستہ رشید جو کہ شروع ہی سے ”پرویز“ ہیں اُنہوں نے کیا خوب فرمایاہے،بھئی میں تو اُن کی معاملہ فہمی اور سلجھا کے انداز کا قائل ہوگیا ہوں....بڑی ہی خوب صورتی سے پہلے تو اُنہوں نے مکھیوں کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے اور پھر یہ بھی بتلادیا ہے کہ میاں صاحب کو جس مکھی سے شکایت ہے یہ وہ مکھی ہے ہی نہیں کہ جس کے تذکرے پر الطاف بھائی کی دل آزاری ہوئی ہے ....اُن کے خیال میں الطاف بھائی سے پیار کرنے والے تو شہد کی مکھیوں کی طرح اُن سے عقیدت کی طرح چمٹے رہتے ہیں جو اُنہیں کبھی چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے بلکہ اگر کوئی عقیدت کے اِس ”چھتےّ“ سے تھوڑا سا بھی شہد ”چُرانے“ کی کوشش کرتا ہے تو وہ اُس ڈکیٹ کو بھرپور جواب دیتے ہیں....ظاہر ہے کہ الطاف بھائی نے برسوں کی محنت کے بعد یہ چھتا تعمیرکیا ہے جس میں اُن سے پیار کرنے والے اپنے اپنے حصے کا شہد جمع کرتے رہتے ہیں اِسی لیے وزیر اطلاعات کے بقول الطاف بھائی کے چاہنے والے میٹھے ہیں کڑوے نہیں....اِس بھرپور وضاحت کے باوجود یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پھر وہ کون سی مکھی تھی جسے راتوں رات شہرت دلانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ،کیوں اُس کا تذکرہ ہوا؟ اور آخر کیا وجہ تھی کہ اُس کی موت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم کو دورانِ خطاب اپنا چشمہ اُتار کر کے گورنر صاحب کو دیکھنا پڑا اور یہ کہنا پڑا کہ ”کراچی میں مکھی بھی مرتی ہے تو ہڑتال ہوجاتی ہے“.... میرا خیال ہے یہ سارا کیا دھرا عشرت بھائی کا ہے ،ایک تو وہ استعفیٰ نہیں دے رہے ، دوسرے بلا کے مطمئن ہیں، تیسرے اُنہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اُن کا نام ای سی ایل میں بھی ہے یا نہیں،چوتھے وہ مسکراتے بہت ہیں،پانچویں اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا ،چھٹے وہ چکنے گھڑے کی طرح ٹس سے مَس ہونے کو تیار ہی نہیں ہیں، ساتویں اُنہوں نے ”فیلڈنگ“ بہترین سیٹ کی ہوئی ہے ،آٹھویں اُنہیں الطاف بھائی کی ناراضگی کی تمام opticsکا پہلے سے اندازہ ہے ،نویں اب اُنہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے اور دسویں وہ ایک انتہائی فرماں بردار اور مہذب انسان ہیںجو اپنے دونوں کا نوں کا بہترین استعمال کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی سنا جائے وہ اِسی لیے ہے تاکہ دوسرے کان سے نکاسی کا راستہ برقرار رہے لہٰذا وہ کانوں میں باتوں کو جمع کر کے نہیں رکھتے بلکہ ایک سے سنتے ہی دوسرے سے نکال دیتے ہیں....یعنی ایک بہترین ٹینشن فِری پیکج ہیں (ماشاءاللہ)
ویسے مجھے شک ہے بلکہ کسی حد تک یقین ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے جس مکھی کی جانب اِشارہ کیا ہے وہ ضرور مکھیوں میں کوئی ”عامل مکھی“ رہی ہوگی، اُس نے ہمیشہ سے یہ خواہش پروں میں دبائے رکھی ہوگی کہ کبھی تو کوئی انسان اُس کا نام لے،کبھی تو اُس کے چرچے ہوں،ہونٹوں پہ کبھی اُن کے میرا نام بھی آئے ....اور اِسی بنا پر اُس نے دِن رات اپنی بھنبھناہٹ سے کوئی عمل ایسا ضرور کیا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے معمول کے خطاب سے ہٹ کر آناً فاناً مکھی کہنا پڑا....سب سنا ہے کہ مکھیوں کے جتھے کے جتھے مقتول یا مرحوم مکھی کی گمنام قبر کا پتہ پوچھتے پھر رہے ہیں تاکہ اُس کی قبر پر حاضری سے کر اُسے اِس بات پر خراجِ تحسین پیش کیا جائے کہ”تم نے اپنی موت سے لفظ مکھی کو ایسا امر کیا کہ وزیر اعظم سے لے کر اِس کالم نگار تک سب ہی مکھی لکھنے ،کہنے اور اُس پر تبصرے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں....مکھی تم امرتھی ....مکھی تم امر رہو گی....جیو مکھی!!!
www.aamirliaquat.com,
Twitter.com/AamirLiaquat
Aamir.Liaquat@geo.tv
-------------------------------------------------------------------
#JangColumns #LoudSpeaker by @AamirLiaquat "Kabuter Ja Ja Ja"
کبوتر جا،جا ،جا…!!…لاؤڈ اسپیکر
یہ صرف کہتے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ کبوتر پرندوں میں اللہ رب العزت کی وہ نفیس ترین تخلیق ہے جس سے پیغمبروں اور ملائکہ نے بے مثال محبت کی اورراندۂ درگاہ و مشرک ابلیس ملعون نے شدید نفرت کی …عہد نامۂ عتیق میں تو کبوتر کے پَروں کو سیدناجبرئیل علیہ السلام کے عظیم الشان پَروںسے تشبیہ دے کراِس پیارے اور حَسین پَرندے کو وہ عزت و وقار عطا کیاگیا کہ روزِقیامت تک تمام طیور کی تارِ نگاہ اِسے رشک سے ہی دیکھے گی…سیدنا سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کے دربار میں اِسے ایک خصوصی درجہ حاصل تھا ،ایک مرتبہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوری انسانیت کو کبوتر کی ایک نصیحت سے آگاہ کیا اور اِرشاد فرمایا کہ ’’سنو! کبوتر تم سے کیا کہہ رہا ہے ، وہ کہتا ہے کہ مرنے کے لئے پیدا ہو اور ویران کرنے کے لئے عمارتیں بناؤ…اِس کی یہ نصیحت بھی کیا ہی بہترین عبرت ہے‘‘…اورپھر ہم اُس کبوتری کو کیسے بھول جائیں جس نے غارِثورکے دہانے پر اللہ کے حکم سے فوراً ہی گھونسلابناڈالا،اور قدرت کاملہ نے اُس کے انڈوں سے لمحے کے ہزارویں حصے میں بچے پیدا کر کے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کو اُس غار کے پاس پھٹکنے بھی نہ دیا…اورنوح علیہ السلام کا وہ وفادار کبوتر جو طوفان کے تھمنے کے بعد سب سے پہلے خشکی کی خبر لے کر آیا…اور مسیح اللہ کے دستِ کرم میں آکر اللہ کے حکم سے پھڑپھڑاتا ہوا جی اُٹھنے والا وہ مٹی کا کبوتر…اور قیدِ تنہائی میں سیدیحییٰ علیہ السلام کی خبر گیری کرنے والا وہ سفید کبوتر…آتشِ نمرود کے گلزار بنتے ہی خلیل اللہ کے کاندھوں پر آکر بیٹھنے والا وہ فرماں بردار کبوتر…تمام پرندوں کو اسحق علیہ السلام کی پیدائش کی خوش خبری سنانے والا مسرور کبوتر…سمندر کی گہرائیوں اورشکم ِ ماہی میں سیدنایونس علیہ السلام کی دعا پر تین دن تلک خشکی میں آمین کہنے والاعابد کبوتر…پالنے میں ننھے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ دریا پرپرواز کرنے والا محافظ کبوتر…مدینہ منور میں مسجد نبوی کے صحن میں چہل قدمی کرنے والا عاشق کبوتر…کعبۃ اللہ کا جُھنڈ کے جھنڈ طواف کرنے والامؤدب کبوتر…اپنی غٹرغوں میں تسبیح رب کریم پڑھنے والاذاکر کبوتر…صدقے اور منتوں کے دانے چُگ کر دعائیں کرنے والامحسن کبوتر… اور اِس کے کتنے روپ بتلاؤں…اِس کی محبتوں اور وفاداریوں کے کون کون سے جلوے دکھلاؤں…اِس سے اُلفت رکھنے والوں کے نام اِتنے بڑے ہیں کہ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں،پھر وہ نام میں کیسے لکھ پاؤں…کیسے سمجھاؤں کہ قابیل سے لے کر ولید بن مغیرہ، مطعم بن عدی ، عمرو بن ہشام (ابوجہل)، عاص بن وائل اور شمر و یزید کو کبوتروں سے کِس قدر نفرت تھی …اور صرف یہی نہیں بلکہ پرندوں کی برادری میں بھی اِس کی سفیدی سے حسد کرنے والے چیخ چیخ کر اپنی آواز کو اِس قدر بھدا بناچکے ہیں کہ کسی پر اُن کی ’’کائیں کائیں‘‘ کا اب کوئی اثر نہیں ہوتا…
ویسے تویہ بہت پرانی بات ہے ، اتنی پرانی کہ جب ہندوستان پر ’’تنگ نظر اور متعصب ہندو‘‘ قابض نہیں ہوئے تھے…سب مل جل کر رہا کرتے تھے…ایسے میں ایک کبوتر اپنے بچے کو اڑنے کا طریقہ سکھا رہا تھاکہ کچھ ہی دیر میں اُس کا بچہ تھک کر درخت کی ایک نچلی ٹہنی پر جا بیٹھاجہاں ایک خالی گھونسلا تھا،اُس نے سستانے کے لئے گھونسلے میں کچھ دیر کے لئے قیام کرنا مناسب سمجھا اور آنکھیں موند لیں…اچانک ہی ایک ہیبت ناک کائیں کائیں نے اُس معصوم کو ہڑبڑا کر اُٹھنے پر مجبور کردیا…نہ رکنے والی کائیں کائیں سن کربچے کا باپ کبوتر بھی فوراً ہی خالی گھونسلے کے قریب آگیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کواانتہائی بداخلاقی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل کائیں کائیں کئے جارہا ہے …اُس کا اصرار تھا کہ مدتوں پہلے یہ گھونسا میرا تھا،گو کہ میں اب اِسے چھوڑ چکا ہوں لیکن یہ ہے میرا ہی اور شکایت یہ تھی کہ تیرے بچے کو یہ کیسے جرأت ہوئی کہ وہ اِس میں چند لمحوں کے لئے سستانے کو آجائے…کبوتر نے انتہائی ملائمت ،نرمی اور آہستگی سے غٹرغوں کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھائی کوے! ہمیں تمہارے اِس چھوڑے ہوئے گھونسلے سے کیا لینا دینا،میرا بچہ بس تھوڑی دیرکے لئے تھک گیا تھا، اگر مجھے اِس کی تھکن کا خیال نہ ہوتا تو اِس گھونسلے میں تو کیا،ہم تو اِس درخت پر بھی نہ بیٹھتے اور پھر ویسے بھی ہم درختوں پر بیٹھنے والے پرندے تو ہیں نہیں، خواہ مخواہ آسمان سر پر نہ اُٹھاؤ، ہم یہاں سے ابھی چلے جاتے ہیں‘‘…مگر جناب! بداخلاق کوا تومزید پھیل گیا اور کہنے لگا’’اچھا اب زبان بھی چلانے لگے ہو،پہلے دوسروں کے درخت پر بیٹھتے ہو،پھر گھونسلوں میں جا گھستے ہو اور اگر کوئی سوال کرے تو زباں درازی کرتے ہو،اب تو میں تمہیں وہ مزا چکھاؤں گا کہ مدتوں یاد رکھو گے اور تمہیں ایسا ذلیل کروں گا کہ کبھی سر اُٹھا کر اڑ نہیں پاؤ گے ‘‘…کبوتر نے ایک بار پھر معاملہ فہمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہاکہ ’’میاں کوے! بات بڑھانے سے کیا فائدہ،چلو اگر ہم سے یہ غلطی ہوگئی ہے جسے تم مسلسل ’’سازش‘‘ کہنے پر تُلے ہوئے ہو تو ہم یہاں سے فوراً ہی چلے جاتے ہیں،تم بھی ذرا اپنے ’’بڑے پن‘‘ کا خیال کرو اور اِس قصے کو یہیں ختم کرو‘‘…لیکن وہ کوا ہی کیا جو کائیں کائیں چھوڑ دے…چنانچہ اُس نے مزید شور و غوغا کرنا شروع کردیا اور کہنے لگا’’اب میں تمام پرندوں کو جمع کروں گا،سب سے کہوں گا کہ تم پڑوسی جنگل کے بھیجے ہوئے جاسوس ہو جو ہمارے گھروں پر قبضہ کرنے آیا ہے، میں آج کبوتروں کی عزت کو خاک میں ملادوں گا، یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے کہ جہاں تھکے وہیں بیٹھ گئے،اب دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں، کیا ہمارا جنگل پرواز سکھانے کا اِدارہ ہے ؟یا یہ کوئی سرائے ہے؟تم بچ نہیں سکتے اور یہ کہتے ہوئے اُس نے کبوتر کے بچے کو زمین پر پٹخ دیا‘‘…غرض یہ کہ وہ ’’مودیانہ کائیں کائیں‘‘ میں آپے سے باہر ہوگیا…جب کبوتر نے کوے کی خباثت کو اِس حد تک پہنچتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا’’اب تمہارا جو جی چاہے کر گزرو…میں یہاں سے جانے والا نہیں…یہ گھونسلا میرا ہے ،میری ملکیت ہے ،میرے اجداد نے اِسے بنایا تھا اور تم نے تقسیم کے بعد سے اِس پر قبضہ جما رکھا ہے لہٰذا جوکر سکتے ہو اب کرلو‘‘…یہ جواب سن کر کوا غصے میں ایسا پھٹا کہ اُس کی کائیں کائیں بھی پھٹ گئی، اُس نے تمام پرندوں کو جمع کر کے کہا کہ ’’کبوتر نے میرے گھونسلے پر قبضہ کرلیاہے ،یہ گھس بیٹھیا ہے اور اب میں اِسے زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘…کبوتر نے پرسکون انداز میں جواب دیا کہ ’’یہ گھونسلا میرا ہے ،اور اِس کوے نے میرے بچے کو گھونسلے سے نکال پھینکا اور شور کر کے مجھ سے میرا گھونسلا چھین لینا چاہتا ہے ،اب تم سب نے فیصلہ کرنا ہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟…تمام پرندے بولے کہ ہم نے کبھی کبوتر کے منہ سے جھوٹی بات نہیں سنی چنانچہ یہی بہتر ہے کہ کوا اپنی شکایت قاضی سے جاکرے اور ہد ہد جو حضرت سلیمان کا مصاحب اور عدل کے معنی سے واقف ہے وہی فیصلہ کرے…کوا بولا کہ میں تو ہد ہد کو نہیں جانتا،پرندوں نے جواب دیا کہ تُو اِس قدر وحشی اور بھدا ہے اِسی لئے ہد ہد سے ناواقف ہے لیکن فیصلہ تو اب وہی کرے گالہٰذا پرندے گئے اور ہد ہد کو بلا لائے…
ہُد ہُد نے آتے ہی پہلے معاملے کو سمجھا اور پھر جرح شروع کی…اُس نے کوے سے پوچھاکہ ’’تیرے پاس کوئی ثبوت ہے کہ یہ تیرا گھونسلا ہے ؟‘‘کوے نے کہا کہ ’’نہیں‘‘…ہُد ہُد نے پھر پوچھا کہ تو اب تلک کہاں تھا‘‘کوے نے کہا ’’ایک گھونسلے میں‘‘…ہُد ہُد نے اب مُڑ کر کبوتر سے پوچھا کہ تُو اب تلک کہاں تھا؟کبوتر نے کہا کہ ’’میں اِسی جگہ تھا،میں اِسی جگہ ہوں اور کوے نے آکر یہاں غل غپاڑہ شروع کردیا کہ یہ گھونسلا میرا ہے‘‘ …ہُد ہُد نے طرفین کے جوابات سننے کے بعد کہا کہ اب میں جو فیصلہ کروں گا کیا سب اُسے قبول کریں گے؟…
سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ یقیناً یقیناً…چنانچہ ہُد ہُد نے کہا کہ ’’میرا فیصلہ ہے کہ گھونسلا کبوتر کو ملنا چاہئے‘‘…کوے نے فیصلہ سن کربہت شور مچایالیکن پرندوں کے ہجوم کے سامنے اُس کا کیا بس چلتا…سب ہی اُسے لعن طعن کرنے لگے…ایسے میں کبوتر ہُد ہُد کے قریب گیا اور اُس سے دریافت کیا ’’حضور آپ نے مجھے حق پر کیسے جانا حالانکہ میرے پاس کوئی ثبوت تھا اور نا ہی کوے کے پاس کوئی سند‘‘…ہُد ہُد نے مسکرا کرکہا کہ تم ٹھیک کہتے ہولیکن اِس طرح کے معاملات میں جب کوئی دلیل موجود نہ ہو توفیصلہ اُس کے حق میں ہوتا ہے جو نیک نام ہو، جس کا اخلاق بہتر ہو،جو سب سے اچھی طرح ملتا ہو…تم راست گو کی حیثیت سے معروف ہو اور کوا دروغ گو کی حیثیت سے مشہور ہے…تم انکساری کے سبب سفید ہو اور وہ حسد و غرور کی آگ میں جل جل کر کالا ہوچکا ہے …کبوتر کی آنکھوں میں اظہارِ تشکر کے آنسو تھے…اُس نے کہا کہ ’’لیکن میں آپ سے سچ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گھونسلا میرا نہیں ہے ‘‘…ہُد ہُد نے پیار سے کبوتر کو دیکھتے ہوئے کہا ’’آفرین ہو تم پر تمہارے بارے میں میرا گمان بالکل درست تھا لیکن پھر تم نے جھوٹ کیوں بولا؟‘‘…کبوتر نے کہا کہ ’’میں نے بالکل جھوٹ نہیں بولا آپ نے جو سوال پوچھا اُس کا یہی جواب تھا کہ میں یہیں بیٹھا ہوں اور میں یہیں تھا، میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ گھونسلا میں نے بنایا ہے یا یہ میںنے خریدا ہے، بس کوے کی بدتمیزی اور الزامات کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا‘‘…ہُد ہُد نے کہا کہ ’’اللہ تجھے برکت دے لیکن میں تجھے رُسوا نہیں کروں گا‘‘…پھر ہُد ہُد نے پرندوں کو آواز دی اور کہنے لگا کہ ’’اگر کوا، کبوتر سے معذرت کر لے تو وہ یہ گھونسلا اُسے دینے کے لئے تیار ہے‘‘…کوے کے پاس کوئی چارہ نہ تھا، اُس نے کہا کہ ’’حضور ! میری تقصیر نہ تھی،بس ہمارا تو کام ہی کائیں کائیں کرنا ہے اِسی وجہ سے سب ہماری کائیں کائیں سے بے آرام ہوتے ہیںاور ہم سے دور رہتے ہیں، میرا تو کام ہی الزام لگانا ہے ،اِس حسد نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا،کبوتر سے گزارش ہے کہ وہ مجھے معاف کردے‘‘…کبوتر نے کوے کی جھکی ہوئی گردن اُٹھاکر اُس سے کہا کہ ’’خاموشی ،کائیں کائیں سے بہتر ہے،اُمید ہے کہ تم نہ یہ راز جان لیا ہوگا، جاؤ میں نے تمہیںمعاف کیا‘‘…!!
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
----------------------------------------------------------------------------------------
ٹھوس ثبوت… لاؤڈ اسپیکر
http://e.jang.com.pk/05-18-2015/karachi/pic.asp?picname=06_08.gif
www.facebook.com/AamirLiaquatslover
www.facebook.com/AamirLiaquatslover
نہ جانے کچھ ’’ظاہری بالغ النظر‘‘ اور ’’ابوتجزیہ کار‘‘پاکستان کی سب سے بڑی دشمن بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کو کلین چٹ دینے کیلئے کیوں اُتاؤلے رہتے ہیں، اِن بے چین بوٹیوں کو ہر وقت ’’ٹھوس شواہد‘‘ کی تلاش رہتی ہے اِسی لیے وہ قوم پر اپنے تجزیوں اور تبصروں کی کوڑیاں ٹھونستے رہتے ہیں تاکہ اُن کی عقل و خرد کا بول بالا رہے اور وہ سکندر بن کر تصوراتی حقائق کی ریاستیں فتح کرتے رہیں…مجھے نہیں معلوم کہ اُن کی نگاہ میں ’’ٹھوس‘‘ کیا ہوتاہے؟کیا ’’را‘‘ کا سربراہ خود اعتراف کرے کہ پاکستان کی بربادی کا منصوبہ اُس کا حرام اِدارہ تیار کرتا ہے یا پھر یہ متمنی ہیں کہ اِس صدی کا بے رحم انسان مودی دہلی کے لال قلعے سے بھاشن دیتے ہوئے اپنے خبث باطن کا اقرار کرے اور دنیا جان لے کہ یہی ہے وہ بدطینت جس نے آج تک پاکستان کو دِل سے تسلیم نہیں کیا ہے …مگر …اس سے بھی زیادہ حیرت مجھے اُ س وقت ہوتی ہے کہ جب ’’آئی ایس آئی‘‘ کا کہیں تذکرہ چھڑے اور یہ بنا کسی ’’ٹھوس شواہد‘‘ کے اپنے وطن کے اِس قابلِ فخر اِدارے کو رگیدنے سے باز نہ آئیں…میرے بھائی حامد میر صاحب پر حملہ ہوا اور یقینا ہم سب کا دِل آج بھی اُن کے درد کو اُسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح اُن کے خاندان نے کیا،میں عینی شاہد ہوں اُن کے زخموں اور اُن کی تکالیف کابلکہ میں نے ہی اُن کے آپریشن کے فارم پر ایک بھائی کی حیثیت سے دستخط کیے تھے اور میں اُس ایک ایک لمحے کو اب تلک بھول نہیں پایا ہوں ، اللہ تعالیٰ اُنہیں ہمیشہ محفوظ و مامون رکھے اور اُن کا سایہ اُنکے خاندان پر تادیر سلامت رکھے (آمین) …مگر…اُسکے بعد کیا ہوا؟ کچھ لوگوں نے ’’ٹھوس شواہد‘‘ کے بنا اُس پورے واقعے کا الزام ’’آئی ایس آئی ‘‘ پر دھر دیا…’’ٹھوس شواہد‘‘ کے بنا ہم کئی گھنٹوں تک لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو ’’رگڑتے‘‘ رہے…’’ٹھوس شواہد‘‘ کے بنا ’’مایہ ناز تجزیہ کاروں ‘‘ نے قومی ادارے پر مقدمہ چلانے کا’’جرأت مندانہ‘‘ نتیجہ بھی اخذ کر ڈالا…’’ٹھوس شواہد‘‘ کے بنا پوری دنیا میں پاکستان کے اِس اِدارے کا تمسخر اُڑایاگیا اور پھر بعد میں غلطی کا احساس ہونے کے بعد ’’معافی‘‘ مانگنا ہی پڑی …حالانکہ میں نے اُس دوران اپنا قصور نہ ہوتے ہوئے بھی 18مرتبہ معافی مانگی تھی اور غلطی کو غلطی ہی تسلیم کیاتھا…لیکن جب ’’را‘‘ کی بات آتی ہے توقلم کے اِن صلاح الدین ایوبیوں کومضبوط،مستحکم اور ناقابلِ تردید ثبوتوں کی اشد ضرورت پڑ جاتی ہے ،جب تلک قابلِ ذکر Tipsاِنہیں نہ ملیں تب تلک یہ ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے …لیکن صاحب!اپنے ملک کی مایہ ناز ایجنسی کو یہ جب چاہیں کٹہرے میں کھڑا کرلیں، جیسے چاہیں اُسے حجتی انداز سے مسل ڈالیں،ڈاکٹر واٹسن اور شرلاک ہومز بن کر جس طرح من چاہے اُسی طرح نکات کے پہاڑ کھڑے ڈالیں ،کوئی اِن فیثاغورثوں کو پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ یہ قلمی جیمز بانڈ ہیں اوراِن پر سات خون معاف ہیں…ہاں البتہ ’’را‘‘ کا معاملہ ذرا مختلف ہے …پڑوسیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے ،اِس بات کی بھی فکر لاحق رہتی ہے کہ’’را‘‘ کے کرتادھرتاؤں کی دل آزاری نہ ہوجائے ، کچھ تو ٹوئٹر پر بے حد سرگرم ہیں اور ’’را‘‘ کے سابق اور موجودہ سربراہ کے ساتھ ہر دَم رابطے میں رہتے ہوئے ’’امن‘‘ کی عظیم الشان پتنگیں اُڑاتے رہتے ہیں…اُنہیںاخلاقیات کے بہترین مظاہرے کا ایک یہی راستہ ملا ہے کہ آئی ایس آئی کو تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے ’’بھارتی دکھ‘‘ پر ’’را کی’’چنڈال ودھواؤں‘‘ کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا جائے اور اُنہیں یہ احساس دلایا جائے کہ صرف آپ ہی نہیں ہم بھی اپنے ملک کے اِس ادارے سے بے حد پریشان ہیں…یعنی ’’را‘‘ کا معاملہ اِن کے نزدیک کچھ اِس طرح ہے کہ
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دَم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‘‘
میں ناراض نہیں حیران ہوں…اور حیران بھی اِن کی عقل پر نہیں بلکہ اِن کی ’’اغیار دوستی‘‘ کی آتش بازی پر ہوں جو یہ اکثر و بیشتر اپنے کالموں اور تجزیوں میں ’’بے لاگ‘‘ کرتے رہتے ہیں…بھلا بتائیے !کہ تحقیقاتی اِداروں نے 5افراد کو سندھ کے ساحلی علاقوں سے گرفتار کر بھی کرلیا ہے جو ممکنہ طور پر سمندر کے راستے بھارت فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے اور جیو فینسنگ کے بعد پکڑے جانیوالے4دہشت گردوں نے اہم معلومات بھی زہر کی طرح اُگل دی ہیں لیکن اِس کے باوجود ’’ٹھوس شواہد‘‘ کا باجا بجانے والوں کو ’’اعترافی ہارمونیم‘‘ کی یہ ’’مَدھردُھن‘‘سنائی نہیں دے رہی…آغا خانیوں کے بہیمانہ قتلِ عام کی تمام تر تحقیقات چیخ چیخ کر ’’را‘‘ کے گھناؤنے عزائم کا بلیٹن پڑھ رہی ہیں لیکن یہ اب تلک ’’ٹھوس ثبوت ‘‘ کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا انتظار فرما رہے ہیں…افسوس صد افسوس کہ کتنے سکون اور اطمینان سے یہ لکھ دیتے ہیں کہ ’’ابھی ’’را‘‘کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملاہے‘‘…لیکن اِسکے برعکس اگر کسی این جی او کا نمائندہ یا کوئی کہنہ مشق صحافی کسی’’تیسرے ‘‘ کی سازش اور قبیح منصوبہ بندی کا نشانہ بن جائے تو وطن سے محبت کے یہ عظیم دعوے دار ’’آئی ایس آئی‘‘ پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ ایسی ایسی ’’الف لیلائیں‘‘ گڑھ لیتے ہیںکہ نسیم حجازی بھی قبر میں یہ سوچ کر یقینا تڑپتے ہوں گے کہ ’’کاش آخری چٹان میں اِن ہی سے لکھوا لیتا‘‘…
بھائی جی! آ پکا حق ہے کہ آپ اپنی جانبدارانہ رائے کا اظہار کریںاور جسے چاہیں برأت کا پروانہ عطا کردیںکہ بخدا پاکستان ایک ایسی نعمت ِ بے مثل ہے کہ جہاں احسان فراموش بھی اُسی طرح پنپتے ہیں جس طرح محب وطن پروان چڑھتے ہیں…آپ کا حق ہے کہ آپ جسے چاہیں ملزم یا مجرم قرار دے دیں کیونکہ یہاں احتساب کرنے والے مصلحتوں کی بھول بھلیوں میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں اور فی الوقت تو اپنے بچاؤ کی ترکیبیں لڑا رہے ہیں…آپ کا حق ہے کہ آپ جس کی چاہیں یہاں نام لیکر پگڑیاں اُچھالیں اور پھر اُس کی بے بسی پر مضحکہ خیز قہقہے لگائیں…آپ کا حق ہے کہ ناقص معلومات،ناکافی ثبوتوں اور سنی سنائی باتوں کی بنا پر آپ جس کا چاہیں میڈیا ٹرائل فرمائیں اور ایک گھنٹے کے پروگرام میں خود ہی جج بن کر اُس کے خلاف فیصلہ بھی سنادیں اور پھر اُس پر عملدرآمد کرانے کیلئے اگلے دِن ’’نئے وکیلوں‘‘ کیساتھ دوسری عدالت لگالیں…مگر اللہ کے واسطے! پاکستان کے واضح،کھلے،ظاہر اور مستند دشمن کو ضمانت پر رہا فرمانے کی قلمکاری کی زحمت نا ہی کریں تو بہت مناسب ہوگا…بلکہ احسان ہوگا!
اچھا یہ بتلائیے …کیا آپ کو معلوم ہے کہ لینڈ ریوینیو کے حکام نے کراچی کے ایک مقامی ہوٹل پر چھاپہ مار کر رئیل اسٹیٹ نمائش کے دوران ایک بھارتی شہری کی کمپنی’’نشماز‘‘ کا ریکارڈ اور کچھ سامان قبضے میں لیا ہے…اور کیا آپ جانتے ہیں کہ اِس چھاپے کے بعد یہ راز افشا ہوا ہے کہ یہ کمپنی رئیل اسٹیٹ کے نام پر حساس اور مشکوک آلات استعمال کررہی تھی۔ اور اِن کے لیپ ٹاپ سے سانحہ صفورا گوٹھ کے ’’سہولت کاروں‘‘ کا اہمdataبھی ملا ہے …کیا آپ کو خبر ہے کہ تحقیقاتی اِداروں نے اب تک کی تحقیقات کے نتیجے میں
سانحہ صفورا میں ’’داعش‘‘ کے امکانات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سٹی اسٹیشن کے قریب سے اقبال نامی بھارتی شخص کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کرلیا ہے جو اب ’’مہمان خانے ‘‘ میں ’’تواضع‘‘ کے بعد ’’کافی کچھ‘‘ بتانے کو تیار ہوچکا ہے …اور کیا آپ باخبر ہیں کہ اب تحقیقات کا دائرہ بلوچستان تک جاپہنچا ہے جہاں آپ کی پسندیدہ،معصوم اور بے گناہ ’’را‘‘ ایک عرصے سے سرگرم ہے اور پاکستان کے دشمنوں کو تربیت دے کر پاکستان کوکمزور کرنے کا ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہے …بہتر ہوگا کہ پہلے ’’ٹھوس شواہد‘‘ کی تعریف ہمیں بتلادیجیے، ہمیں سمجھا دیجیے کہ آپ جیسے ’’ضدی بزرگوں‘‘ کو کیسے سمجھایا جائے…اور ہاں ثبوت کس چڑیا کو کہتے ہیں ذرا اُس کے گھونسلے تک ہمیں بھی پہنچا دیجیے تاکہ اُس کے انڈے ہم آپ کر تَل کر کھلا سکیں…پھر پیٹ تو بھر جائے گا نا؟؟…کہیں بعد میں یہ تو نہیں کہیں گے کہ ثبوت کی پھر بھوک لگ رہی ہے !!
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
-------------------------------------------------------------
لہو رِستا کراچی …مصروف سیاست دان…شیرجنرل … لاؤڈ اسپیکر
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
خوف،دہشت اور بے یقینی کے سائے اِس قدر گہرے ہیں کہ مرنے والا ایک ہو یا45…لیکن اُنہیں مارنے کی ذمے داری اُٹھانے والے بہتیرے مل جائیں گے…کبھی طالبان تو کبھی جند اللہ…کبھی احرار تو کبھی داعش…لیکن ذمے داری قبول کرنے والوں کے ’’اعتراف‘‘ کو ’’قبول‘‘ کرنے والے اِن کی ’’ماں‘‘ کو کیسے بھول جاتے ہیں جس کی کوکھ سے اِن ناسوروں نے جنم لیا ہے…مجھے اِن بدبختوں کی پیدائش پر تکلیف نہیں کیونکہ جب تک اِن کا باپ ابلیس زندہ ہے یہ پیدا ہوتے رہیں گے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، اور پھر ہر ماں کے یہ اختیار میں بھی نہیں کہ اولاد بڑی ہو کر کیا نکلے گی …پَر یہاں تو اُس ’’ماں‘‘ کا ذکر ہے جو اختیار کے ساتھ اِن کو جَنتی ہے اور پھر بغض و عناد اور نفرت و فساد کی غذا پر اِنہیں پال کر انسانوں کا لہو پینے کے لئے شکار پر روانہ کردیتی ہے…ہم میں سے اکثراِس ’’ماں‘‘ کا نام لینے سے گھبراتے ہیں،بیشتر کتراتے ہیں اور چند ایک تو بات ہی اِدھر اُدھر کرجاتے ہیں…حالانکہ اِن کی ’’ماں‘‘ ایک ایسی آوارہ،کسبی اور بدنام فاحشہ ہے جو پورے برصغیر میں ’’را‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور اِس قدر ’’معروف‘‘ ہے کہ عیب چھپائے نہ چھپیں!!…
ہمارے ہاں آج بھی کچھ ’’دانشور‘‘ اور ’’متوازن فکر رکھنے والے مبصرین‘‘ (جنہیں پاسپورٹ پر سارک کا اسٹیکر لگوا کر بھارت آنے جانے کا بہت شوق ہے)اِس بے نسب و بے غیرت ایجنسی کو یہ ارشاد فرما کر بے گناہی کی سند عطا کردیتے ہیں کہ ’’چلئے مان لیا کہ دہشت گردی میں ’’را‘‘ ملوث ہے لیکن اُس کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے والے تو ہمارے اپنے ہی ہو سکتے ہیں نا‘‘…اجی ارشمیدس کے پوتوں نواسو!’’وہاں‘‘ سے تو کبھی ایسی آواز نہیں آئی؟یاد ہے کہ اجمل قصاب کے پکڑے جانے پر کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’’اِسے ہمارے ہاں کے کچھ مقامی افراد کی سرپرستی حاصل ہے‘‘ بلکہ سیدھا الزام پاکستان اور آئی ایس آئی پر عائد کیا تھااور تم سب جانتے ہو کہ اُس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں تھی…لیکن وہاں ’’بنیوں‘‘ نے اپنی ماتا بھارت کا وقار بَلند رکھا اور یہاں تم اپنی مادرِ وطن کے سینے پر حجتوں اور سوالوں کی چھریاں چلاتے ہو!…بڑے دانشور بنے پھرتے ہو اور اِتنا بھی نہیں سمجھ پاتے کہ سانحے کے بعد آناً فاناً مودی کے’’ اشکِ مگر‘‘ خاموشی سے ہی سہی مگر سب کچھ کہہ رہے ہیں…تم شاید اِنہیں اب بھی ’’غم کے آنسو‘‘ قرار دو مگر میں تو گجرات کے قصائی کی آنکھوں سے ٹپکنے والے ہر قطرے کو’’ مسرت کے گنگا اشنان‘‘ کے علاوہ کچھ اور سمجھ ہی نہیں سکتا اور نا ہی سمجھنا چاہتا ہوں…جو میرے ملک کا دشمن ہے…صاف اور کھری بات کہ وہ میرا دشمن ہے اور میرے دل میں اُس کےلئے کسی بھی قسم کی ’’دانشورانہ ہمدردی‘‘ یا امن کی آشا نہیں!!!
دولتِ اسلامیہ کا ’’مشکوک پمفلٹ‘‘ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میرے وطن کی سب سے پُر امن برادری اسماعیلیوں کے قتلِ عام میں بھارت ملوث ہے…شام اور عراق بہت دُور ہیں دوست! بھارت اور افغانستان بڑے ہی قریب ہیں یارم!اور پھر جو پہلے ہی سے بدنام ہو، اُس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلادینے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، ہر ظالم کے پیچھے ایک بڑا ظالم ہوتا ہے اور دولتِ اسلامیہ کی دہشت گردی کی آڑ میں خطے کا سب سے بڑا ظالم،عیار،مکار اور دھوکے باز بھارت چھپ کر اپنے خبثِ باطن کو تسکین دینے کی کوشش کررہا ہے… بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام اِن ہی کے لئے مشہور ہے ، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے نے اِن کے خون کو مزید گندا کردیا ہے، یہ اُس پاکستان کو کیسے پھلتا پھولتا دیکھ سکتے ہیں جسے یہ آج تک بٹوارے کے نتیجے میں ’’اپنا حصہ‘‘ سمجھتے ہیں اور علیحدگی کی سزا اِسے ختم کر کے دینا چاہتے ہیں…لیکن شاطر اِتنے کہ الزام بھی اپنے اوپر نہیں آنے دینا چاہتے اور اِس کے لئے اپنے اُن لے پالک ’’بچوں‘‘ کی مدد اور اُن کا نام استعمال کرتے ہیں جنہیں اسلام اور پاکستان نے اُن کی پیدائش کے چند لمحوں بعد شکل دیکھتے ہی ’’عاق ‘‘ کردیا تھا…ہم میں اور بھارتیوں میں فرق یہ ہے کہ ہم نے اِن اسلام دشمنوں کو اپنی صفوں میں ایک انچ بھی گھسنے کی اجازت نہیں دی مگر سانپ کی پوجا کرنے والے یہ زہریلے ناگ…بجرنگ دَل، راشٹریہ سیوکھ سنکھ اور شیو سینا جیسے اژدھوں کی نہ صرف کھل کر پرورش کرتے ہیں بلکہ اُن کے زہرِ ہلاہل کو ’’برائے فروخت کرداروں‘‘ میں تقسیم کر کے معصوم صفت انسانوں میں اموات پھیلاتے ہیں…
خیر مجھے اِس ’’را‘‘کی تباہی سے متعلق بال برابر بھی شک نہیں اور انشاء اللہ جلد یا بدیر اِس ایجنسی کی جنس کا کوئی بھی سنپولا بچ نہیں پائے گا …ویسے بھی ’’را‘‘ ہم پاکستانیوں کے نزدیک ’’رائی‘‘ کے دانے سے زیادہ بڑی نہیں اگر وطن کے ’’دانے ‘‘ صحیح ہوجائیں!…افسوس تو یہ ہے کہ یہ ’’دانے ‘‘ اپنی لَن تَرانی سے باز نہیں آتے،مثل تو بال کی کھال اُتارنا مشہور ہے لیکن یہ حُجّتی تو کھال کے اندر سے بھی بال نکال لیتے ہیں اور پھر ایسے ایسے بے تُکے سوالات اُٹھاتے ہیں کہ شیطان بھی کچھ دیر کے لئے سکون کا سانس لے کر یہ ضرور کہتا ہوگا کہ ’’حکم کے برخلاف سوال کرنے والا میں اکیلا نہیں! مجھے حیران کرنے والے اور بھی ہیں‘‘…اِس کے علاوہ کچھ ’’دانے‘‘ وہ بھی ہیں جو پاکستان کے جسم پر ہیں…یعنی ’’حکمراں دانے‘‘…کمال تو یہ ہے کہ کراچی میں لاشوں پر لاشے اُٹھائے جارہے تھے اور قوم کے ’’عظیم رہنما‘‘…ملکی تاریخ کے ’’اہم ترین اجلاس‘‘ میں کہ جس کا نتیجہ پہلے سے معلوم تھا کہ ’’نہیں نکلے گا‘‘…آئس کریم، کباب ،سموسے ،ڈرائی فروٹس اور دیگر’’اشیائے بحالیٔ توند ‘‘مزے لے لے کر تناول فرما رہے تھے…کراچی جانا کسی کے لئے ’’ضروری‘‘ نہیں تھا… اسفندیار ولی صاحب نے آنکھیں نکال کر منع کیا تو فضل الرحمن صاحب نے اِسے ’’عام سا حادثہ‘‘قرار دے کر نظر انداز کردیا…مشاہد حسین صاحب کےلئے اجلاس ضروری تھا کیونکہ ’’آئس کریم‘‘ بہت اچھی تھی اور تحریک انصاف کو یہاں سے ایک اور ’’دھرنے ‘‘ کی خوشبو آرہی تھی…یہ سب انتہائی مصروف رہنما تھے، شدیدمشغول…قوم کی فکر میں مستغرق اور وطن کے مستقبل کےلئے پریشاں، شاید اِسی وجہ سے کراچی جیسے سانحے کے لئے جو کہ ایک عام سی بات ہے، اِن کے پاس وقت نہیں تھا…لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے ہمیں اِن ’’مصروف‘‘ رہنماؤں کے درمیان ’’ایک فارغ انسان‘‘ بھی عطا فرمایا ہے …جس نے اِس ’’مصروف مخلوق ‘‘ کی نگاہ میں اپنی ’’دھوکا دینے والی تمام مصروفیات‘‘ ختم اور بیرونِ ملک دورہ ملتوی کر کے کراچی پہنچنے کو ترجیح دی،عزت مآب پرنس کریم آغا خان کو فون کیا،اپنے درد کا اظہار کیا، فوری اجلاس بلایا اور رات ’’مصروف وزیر اعظم‘‘ کے آنے تک منتظر رہا…یہ ایک عجیب ’’بے کار آدمی‘‘ ہے جس نے کراچی والوں کو غیر محسوس طور پر یہ احساس دلایا کہ ’’تم اکیلے نہیں ہو! ہم اِس آپریشن کے دوران تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے،ایک ایک کو پکڑیں گے اور بھاگنے نہیں دیں گے،اب سب کچھ بے نقاب ہوگا اور ہر حساب صاف ہوگا‘‘…کبھی یہ ’’پیکرِ فرصت‘‘ پشاور پہنچ جاتا ہے تو کبھی اگلے مورچوں پر جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کےلئے اُن ہی کے ساتھ کھڑا رہتا ہے …بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا،سندھ ہو یا پنجاب، گلگت ،بلتستان ہو یا شمالی علاقہ جات…’’عجب آزاد مرد‘‘ ہے کہ ہرزخم پر مرہم کی طرح پایا جاتا ہے …چہرے پر بلا کا اطمینان مگر آنکھوں میں ’’اصلی شیر‘‘ کی سی چمک!!…سب وزیراعظم سیکریٹریٹ میں کرسیوں سے ’’چِپکے‘‘ کھاتے اور اپنے اپنے اعتراضات کے گُن گاتے رہے مگر یہ ’’فارغ آدمی‘‘ اسماعیلی برادری کو دلاسہ دینے سب سے پہلے کراچی پہنچا…پاکستان کو ایسے ہی ’’بے کار انسانوں‘‘ کی ضرورت ہے ، کام والے تو مدتوں پہلے ہی ’’کام آگئے‘‘اور اب جو کام کا ڈھونگ رچا رہے ہیں وہ ہر کام سے پہلے ’’نا‘‘ کرتے ہیں اِسی لئے اُنہیں’’ناکام‘‘ کہاجاتا ہے …اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے ہی دوچار’’فارغ‘‘اور عطا فرمادے تاکہ جنرل راحیل شریف کو کچھ سانس لینے کا وقت مل جائے…(آمین)!!
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
حرام ایجنسی ’’را‘‘…لاؤڈ اسپیکر
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
http://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=05-04-2015/Karachi/images/06_07.gif
www.facebook.com/AamirLiaquatslover
www.facebook.com/AamirLiaquatslover
موسم ہر طرح سے گرم ہے …چاہے سیاسی ہو یا قانونی…آئینی ہو یاجمہوری، گرمی شدت کو پہنچ چکی ہے بلکہ کراچی میں تو کچھ زیادہ ہی شعلہ آلودہے …یہاں تک کہ لُو سے زیادہ گرم اور سورج کی تمازت سے پَرے ’’تپش گر‘‘بیانات اور ’’خطابات‘‘ کے آگ برساتے تھپیڑے مزاج پوچھنے میں ذرا بھی کوتاہی کا مظاہر ہ نہیں کررہے، کچھ حیران ہیں کہ کیا کہیں؟کچھ پریشان ہیں کہ کیسے کہیں؟کسی کو فکر ہے کہ ’’ردعمل‘‘شدید نہ ہو اور کوئی اِسی احتیاط میں خاموش ہے کہ کہیں احتیاط کا دامن ہی ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے… اکثر چاہتے ہیں کہ معاملہ ’’رفع دفع‘‘ ہو اور بیشتر چاہتے ہیں کہ اِس پر بھی کوئی ’’دفعہ‘‘ ہو…ویسے’’ قدم بڑھاؤ صاحب ‘‘نے تو احتیاط میں بھی اِس قدر احتیاط کردی کہ انتہائی احتیاط سے سوچ بچار کے بعد یہ ردعمل دیا کہ ’’حساس معامالات میں سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے‘‘… اور ردعمل بھی چونکہ ایک ’’حساس معاملہ‘‘تھا اِسی لئے وہ بھی بہت سوچ سمجھ کر بڑی دیر بعد بولے مگر اللہ کا شکر کہ بولے…
بہرحال میں اِسی اُدھیڑ بُن میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا لکھوں؟ویسے بھی ’’صبح پاکستان‘‘ اور ’’انعام گھر پَلس‘‘ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوچکے ہیں اور میں رجب المرجب،شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کی تیاریوں میں کچھ یوں مگن ہونے کو تیار ہوں کہ کسی کو خبر ہی نہ ہو کہ میں کہاں ہوں؟ لیکن ’’خبریں‘‘ ہی ایسی ہیں جو پولیس کی طرح ہم کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا تعاقب کررہی ہیں…اِدھر چُھپنے کی کوشش کی اور اُدھر ’’پولیس مقابلے‘‘ میں جان گئی…ہر خبر ’’راؤ انوار‘‘ ہے اور ہر کالم نگار ،صحافی یا تجزیہ کار ’’مبینہ دہشت گرد‘‘…حالانکہ ہم سب پہلے ہی سے ’’گرفتار ‘‘ ہیں ، ہاں اِس کا پتا نہیں کہ بکتر بند میں لے جاکر کسے کہاں’’پھڑکایا‘‘ جائے گا اور کون پھڑکائے گا؟’’کون‘‘ سے میرا مطلب ہے کہ ’’خبریں دینے والوں‘‘کا وار کارگر ہوگایا ’’خبریں بنانے والے‘‘ کامیاب رہیں گے؟…البتہ دونوں ہی صورتوں میں سوسائٹی،میوہ شاہ ،پاپوش، گذری، ڈیفنس، ملیر، ناظم آباد یا ملک پلانٹ کے قبرستانوں میں گورکنوں کی چاندی یقینا ہو جائے گی…
گو کہ’’را‘‘ کی حیثیت ہمارے ملک میں ایسی ہی ہے اور بلاشبہ ایسی ہونی بھی چاہئے جو اسلام کی نگاہ میں ’’خنزیر‘ کی ہے …مگر ’’خنزیر‘‘کو ایک ’’امتیازی وصف‘‘ یہ بھی حاصل ہے کہ اضطراری کیفیت میں کہ جب ’’حالتِ احتضار‘‘ ہو اور کھانے کو ایک دانہ بھی میسر نہ ہو توجان بچانے کے لئے اُس کا ایک لقمہ تناوُل کیا جاسکتا ہے ،یہ اور بات ہے کہ متقیوں کے نزدیک جان ہاردینازیادہ بہتر ہے بجائے اِس کے اُس لقمے کی جانب ہاتھ بڑھایا جائے جسے اللہ نے حرام قراردیا ہے…تقوے اور فتوے میں بس یہی ایک فرق ہے اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ دینی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے ہیں، عزیمت والے تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور رخصت والے فتوے سے استفادہ کرتے ہیں…لیکن ’’را‘‘ اِس معاملے میں انتہائی ’’بدقسمت‘‘ ہے …اِسے تو ’’اضطراری حالت‘‘ میں بھی پُکارا نہیں جاسکتا، یہ ایک ایسی ’’حرام‘‘ ایجنسی ہے کہ جس کی ’’جنس ‘‘ کا بھی ابھی تلک کوئی تعین نہیں ہوسکا ہے …خود اِس کا تخلیق کار بھارت اِسی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ اِسے ’’ہوتی‘‘ کہیں یا ’’ہوتا‘‘…اُن کے نزدیک کبھی را ’’کرتی‘‘ ہے اور کبھی یہ ’’کرتا‘‘ ہے …ویسے تو یہ RAWہے یعنی معنوں کے اعتبارسے خام، نامکمل،کچا، ناپختہ، بودا ،کمزور ،ٹیڈی ،ناتجربہ کار، اناڑی،فضول،بے ہودہ اور اُس وقت تک بے کار کہ جب تک اِسے قابلِ قدر شکل نہ دے دی جائے …یہ اور بات ہے کہ اِسے جب بھی ’’مورتی بنانے والوں‘‘ نے کوئی شکل دینے کی کوشش کی اِس کا تھوبڑا مزید بگڑ کر ہی رہ گیا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ٹہری کہ اِسے یہاں ،وہاں گُھسنے کی بڑی عادت ہے…اپنے ہاں تمیز سے بیٹھنے کے بجائے ’’پڑوس‘‘ میں گھس کرتا کا جھانکی،چوری چکاری،لگائی بجھائی اور مفسدانہ عادتوں نے اِس کا حلیہ برباد کرکے رکھ دیا ہے،صورت چڑیلوں کی اور دماغ پریوں جیسا کے مصداق بدصورتی پر حسن کا ایسا اندھا گمان ہے کہ لوگ اگر نفرت سے منہ پر تھوکیں تو اِسے بھی بدبخت پذیرائی کی پھوار سمجھتی ہے …مجال ہے جو اپنے گھر میں اطمینان سے رہے، اِسے تو دوسروں کے گھر پر نظر رکھنے میں مزا آتا ہے ،ہمسایوں کا چین اُجاڑ کر اِسے نہ جانے کون سا سکون ملتا ہے اور اِسی بدخصلتی کی نحوست اِس کے چہرے سے بھی عیاں ہے…پھٹکار اور دھتکار کے زہریلے پھوڑوں کی چیچک کیساتھ اِس کی شکل اتنی بھیانک و خوفناک ہے کہ دیکھنے سے کراہیت آئے اور یہی وہ سبب ہے کہ ہمارے ملک میں اِس کا نام لینا کسی ’’غلیظ شے ‘‘ کوعزت دینے کے مترادف ہے کیونکہ اِس کے مقابلے میں ہر پاکستانی ایک باعزت ،وفادار اور محب وطن ہے اور کسی باعزت اور ہر دل عزیز کے منہ سے اِس رُسوا کا نام چاہے نفرت میں ہو یا محبت میں،عمداً ہو یا طنزاً…بس دلوں کو مایوس،پژمُردہ اور غم زدہ کردیتا ہے…دل گویا ٹوٹ جاتے ہیں، چہروں پر تاسف ڈیرے ڈال لیتا ہے اور گردنیں بھاری ہوکر جھک جاتی ہیں… اُمید ہے کہ آئندہ خیال رکھا جائے گا اور ’’را‘‘ جیسے دھوبی کے کتے کو کہ جو گھر کا ہے نا گھاٹ کا، بے وجہ اہمیت دینے سے گریز کیا جائے گا…میں تو کہتا ہوں کہ جس سے لوگ محبت کرتے ہوں اُسے اپنے چاہنے والوں کی حمایت کافی ہے، اُس بدشکل بھارتی سانپ کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہی کیاجو موقع ملتے ہی آپ کو بھی ڈَس لے گا…!!
مجھے یقین ہے کہ یہ بحث جلد اختتام پذیر ہوگی،معافی کے بعد معاف کردینا ہی اللہ کو محبوب ہے اور پھر یہ تو اور بھی اچھی بات ہے کہ کسی کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ بلاتاخیر اِس پر اپنی وضاحت اور معذرت کا مرہم لگا کر زخم کو مندمل کرنے کی کوشش کرے …افراتفری سے یوں بھی کچھ حاصل تو ہونا نہیں ہے، حالات مزید ہی بگڑیں گے جو کسی طور بھی ملک کی موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں مناسب نہیں…سب نے اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا،قراردادیں بھی پیش ہوگئیں اور غصہ بھی نمایاں ہے، کہنے والے کو بھی (اچھے گمان کے مطابق)اندازہ ہوچلاہے کہ جذبات کے دریا میں اِتنی دور تک نہیں تیرنا چاہئے کہ ساحِل ہی نظروں سے اوجھل ہوجائے لہٰذا اب کچھ اور باتیں ہوجائیں،پکڑے جانیوالوں سے مزید تفتیش کی جائے،قانون نافذکرنیوالے اِداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور آپریشن کو اُسکے منطقی انجام تک اِس طرح پہنچایا جائے کہ اِسکی ’’شفافیت‘‘ پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے …بدنام اور بُری شہرت کے حامل افسران سے پریس کانفرنسیں کرانے اور میڈیا پر اُن کی رونمائی کے بجائے حکومت مجرموں کو عدالتوں میں پیش کرے اور اُنہیں سزا دلوانے میں اُتنی ہی جَلدی کرے جس طرح میت کو دفنانے میں جلدی کی جاتی ہے…
ویسے تو ہمارے ملک میں کچھ ایسے خود ساختہ لبرلز،کینڈل بردار چُھٹیرے اور طے شدہ ریٹ کے مطابق ’’ماڈریٹس‘‘ بھی ہیں جو ٹوئٹر اور فیس بُک کے ذریعے ’’را ‘‘کے سابقہ اور موجودہ سربراہان سے ’’رابطے‘‘ میں رہتے ہیں اور اُن کی لَلّو چَپّو میں اِس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنی ’’شناخت‘‘ پر شرمندگی کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے،اپنے گریبانوں کی دماغ پھاڑدینے والی بدبو سے اِن کی طبیعت مالش نہیں کرتی مگر اپنی فوج اور آئی ایس آئی کی خوشبو سے اِن کا وجود اُسی طرح بلبلاتاہے جس طرح گندگی کا کیڑا چمن کی مہک سے اُلجھتا ہے اور واپس گندگی کی طرف رینگتاہے تاکہ مرنے سے بچ جائے…میں ایسے ہی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہولڈرز سے (اِسکے سوا اِن میں کوئی پاکستانیت نہیں) یہی کہنا چاہوں گا کہ بھارت سے دوستی کی بات اور ہے اور ’’را‘‘ سے ڈوریں ملانے کی بات اور … براہِ کرام فرق رکھا کیجئے ، قوم پر احسان ہوگا…!!
------------------------------------------------------------------
ٹوئٹر اور فیس بُک کے دہشت گرد!… لاؤڈ اسپیکر
ابے او بالآخر تُوپیسے لے کر بِک گیا…تُو بھونکنے والا ک اورمنافق ہے …تیرے تو ماں باپ کا بھی پتہ نہیں…تُو ایک ک کی اولاد ہے …ایم کیو ایم نے تجھے خریدلیا ہے…تیرے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ تُو کیا ہے اور تُو کس کا غلام ہے…ایک سیاسی یتیم سے زیادہ تیری کوئی اوقات نہیں ہے…پی ٹی آئی نے گھاس نہیں ڈالی جب ہی تو ہمارے خلاف بکواس کررہا ہے …وغیرہ وغیرہ …(گو کہ مجھے اپنی والدہ کے لئے یہ لفظ لکھتے ہوئے کس قدر تکلیف ہورہی ہے یہ میں ہی جانتا ہوں مگراللہ کی قسم! یہ مؤرخ کا فرض ہے کہ تاریخ درست لکھے، اِسی لئے ہر لفظ کاریکارڈ پر لانا ضروری ہے، ہم نے غلط تاریخ کی وجہ سے اپنے اوپر ہی کئی ستم ڈھائے ہیں)
یہ وہ کسیلے،کڑوے اور اخلاقیات پر بلغم تھوکتے زہریلے جملے ہیں جو این اے 246کے ضمنی انتخاب پر ’’ایماندارانہ تجزیہ‘‘ لکھنے کے بعد پی ٹی آئی کے ’’لکھے پڑھے‘‘…’’تجربہ کار‘‘…’’برداشت کے عظیم پیامبر‘‘…اور ’’اچھے گھرانے‘‘ کے دعوے داروں نے’’تصوراتی اور جھوٹی دنیا ‘‘ یعنی سوشل میڈیا کے ٹوئٹر یا فیس بُک پر پوری قوت سے میرے خلاف ’’اُگلے‘‘ اور کیونکہ میں فیس بُک پر ہوں اور نا ہی ٹوئیٹر پر لہٰذا میرے بعض ’’مشتعل چاہنے والوں‘‘ نے مختلف طریقوں سے رابطہ کر کے مجھے ’’اسکرین شاٹس‘‘ اِرسال کئے اور اپنے شدید غم وغصے کا یہ کہہ کر بھی اظہار کیا کہ ’’بہت خاموش رہ لئے آپ! یا تو جواب دیجئے یا پھرٹیلیویژن پرآکر کہہ دیجئے کہ جس کا جیسا جی چاہے وہ اِس غلاظت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرے ‘‘…
عرض یہ ہے کہ میں اِن گِری ہوئی باتوں کو ’’اُٹھانا‘‘ نہیں چاہتا…یہ کوئی نوالہ تو ہے نہیں جسے اُٹھا کر صاف کرنے کے بعد کھالیا جائے اور سنت پر عمل بھی ہوجائے بلکہ ایک سچے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(جو کہ میں نہیں ہوں،کہ یہ راہ آسان نہیں بہت کٹھن ہے)کا یہی کام ہے کہ وہ جاہلانہ کلام اور بدبودار مغلظات کو سننے کے بعد صرف مسکرائے اور گندگی باہر نکالنے والوں کے لئے ہدایت کی دعا کرے…گو کہ میرے بھائی نعیم الحق صاحب نے بھی جذبات میں آکر بہت کچھ کہہ ڈالا ہے مگر میں اُن کا اُسی طرح احترام کرتا رہوں گا جیسا کہ پہلے کیا کرتا تھا،میرے دوست عمران اسماعیل صاحب بھی بہتے ہوئے کافی آگے نکل گئے ہیں لیکن مجھے ہمیشہ وہیں پائیں گے جہاں اُنہوں نے مجھے چھوڑا تھا اور اِسی طرح خان صاحب کے ’’ذاتی احترام‘‘ میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوگی کیونکہ وہ ایک بڑے انسان ہیں اور اُنہیں اللہ نے عزت دی ہے اور جسے اللہ عزت دے اُس کی ذات کو کبھی ہدف نہیں بنانا چاہئے …البتہ عمل پر تنقید،اقدامات پر سرزنش،پالیسیوں سے اختلاف اور طریقہ کارپر تحفظات…صرف میرا ہی نہیں بلکہ ہر ایک پاکستانی کا بنیادی،آئینی،جمہوری،اخلاقی اور سماجی حق ہے …بالکل اُسی طرح جس طرح’’ آپ‘‘ اور آپ کے ’’چاہنے والے‘‘ اِس حق کو جس طرح جی چاہے استعمال کرتے ہیں…
میں نے اگر این اے246کے بارے میں ’’حقائق ‘‘ لکھے تو کیا جرم کیا؟ نتائج نے بتلادیا کہ یہ جن کی نشست تھی اُن ہی کے پاس رہی بلکہ ایک انچ بھی آگے نہیں سِرکی… اور جہاں تک ’’ووٹ کم‘‘ پڑنے پر ’’عزتِ انصاف‘‘ بچانے کا تعلق ہے تو بھائی صاحب!(عارف علوی صاحب عموماً اِسی طرح مخاطب کرتے ہیں)ووٹ کم نہیں پڑے…بہت زیادہ پڑے ہیں کیونکہ یہ ’’عام انتخاب ‘‘نہیں ’’ضمنی الیکشن‘‘ تھا…پورے ملک میں عام تعطیل تھی اور نا ہی ووٹروں کو گھر سے باہر نکالنے کی میڈیا نے کوئی ’’باقاعدہ مہم‘‘شروع کررکھی تھی …اگر یاد ہو تو 2013کے عام انتخابات میں تمام میڈیا ہاؤسز اور بالخصوص ’’جیو نیوز‘‘ اِس عمل میں پیش پیش تھا اور ہر دس منٹ کے بعد اسکرین پر یہ درخواست مختلف انداز سے ناظرین کو یاددہانی کرارہی تھی کہ ’’ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ دینے کےلئے گھروں سے باہر نکلیں، نوجوان اِس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں…اپنے ووٹ کے حق کو ضائع نہ ہونے دیجئے…پولنگ اسٹیشنز کے باہر آپ کی قطاریں ہی ملک میں حقیقی جمہوریت کا فیصلہ کریں گی‘‘ اور نہ جانے کیا کیا کہا جارہا تھا …یہاں تک کہ ’’مسٹر جیم‘‘ بھی مسلسل ’’نوجوان ووٹرز‘‘ کو جگانے کے لئے اسکرین سے لمحہ بھر بھی اوجھل نہ ہوئے جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ’’ٹرن آؤٹ‘‘ غیر معمولی رہا اور کئی حلقوں میں لاکھوں کی تعداد میں ووٹ پڑے…
اِس ضمنی انتخاب میں اُمیدواروں اور میڈیا کی توجہ ’’ذاتی حملوں کی تشہیر‘‘ …’’زندہ لاش پر تبصروں‘‘…اور’’پورا مہاجر یا آدھا مہاجر‘‘کے سوال پر ہی مرکوز رہی،کسی نے بھی ووٹرز کو باہر نکلنے کی ترغیب نہیں دی لہٰذ جتنے بھی نکلے وہ ’’بہت‘‘ نکلے ہیں صاحب!عام اور ضمنی انتخاب کے فرق کا موازنہ کیا جائے تو حاضری 55فیصد تک بن جاتی ہے جنابِ والا…اور اگر ’’اُنہیں‘‘ ووٹ کم پڑے ہیں تو ’’آپ‘‘ کو کون سے زیادہ پڑگئے؟بقول شخصے کہ واقعی کراچی خوف سے آزاد ہوگیا جس کا واضح ثبوت پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹوں میں کمی ہے اور لوگوں نے بے خوف ہوکر ایم کیوایم کو ووٹ دے ڈالے…دیکھئے جناب! میں پھر گزارش کرتا ہوں کہ میرا ایم کیوایم سے اب کوئی تعلق نہیں ہے ،کبھی ہوا کرتا تھا اور میں نے چھپ کر نہیں بلکہ اعلانیہ اِس جماعت کو خیر باد کہا ہے لیکن اگر کوئی یہ چاہتاہے کہ ایم کیوایم چھوڑنے کے بعد مجھے اِس میں صرف برائیاں نظر آنا چاہئیں تو اُس سے بڑا فریبی،چلتر باز،جھوٹا اور مکار کوئی اور ہوہی نہیں سکتا…ایک عرصے تک میں MNAبن کرعزت حاصل کروں،پھر وزیر بن کر جھنڈے والی گاڑی میں اِتراتا پھروں اور جیسے ہی ’’بوجوہ‘‘ اُس جماعت سے علیحدہ ہوجاؤں تو مجھے ٹھپے،دہشت گردی ، بربریت ،ظلم ،خوف …سب ہی نظر آنا شروع ہوجائیں اور میں اُن تمام ایام کو فراموش کردوں جب عوام کے دکھ درد اور مسائل حَل کرنے کا اِسی جماعت نے مجھے شعور عطا کیا تھا…کم از کم شیخ لیاقت اور محمودسلطانہ کے خون سے یہ توقع نہ رکھی جائے تو بہتر ہوگا!…میں آج بھی ختم نبوت اور ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی سے کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوں بلکہ اِس پر جینے کے بجائے مرنے کو ترجیح دوں گا کیونکہ Convincedہوں کہ میرا راستہ درست ہے …لیکن چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کر کے یہ شور کرنے کو بھی قطعاً تیار نہیں کہ شہر میں سونامی آگیا ہے …ابھی پی ٹی آئی کو یہاں بہت محنت کی ضرورت ہے ،ایم کیو ایم نے جس طرح لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہے آپ کو بھی کچھ ایسا ہی کرنا ہوگا دوستو! انتخابات ٹوئٹر یا فیس بک پر نہیں بلکہ عوام کے درمیان ہوتے ہیں،حیران ہوں کہ برداشت کا درس دینے والے Virtual Worldمیں جذبات کا اظہار کرتے ہوئے آپے سے کیوں باہر ہوجاتے ہیں؟ کیوں چاہتے ہیں کہ جیسا آپ سوچ رہے ہیں اُسی کو درست مان لیاجائے ؟بقول آپ کے اگر ایم کیوایم مخالفت برداشت نہیں کرتی تو معذرت کے ساتھ کپڑے اُتارنے میں تو آپ بھی کسی سے کم نہیں بلکہ اگر سوشل میڈیا پر اِس کا مقابلہ کرالیاجائے تو آپ کے ’’ایکسپرٹس ‘‘اُس اُس زاویے سے مخالفین کو ننگا کرینگے کہ شرم بھی کچھ دیر کیلئے شرما جائے…بھائی صاحب! پہلے اپنے آپ کو درست کیجئے،لوگوں سے رابطے بڑھائیے ،تنظیمی ڈسپلن بہتر کیجئے، نہاری کھانے کے علاوہ بھی علاقے میں آیا جایا کیجئے اور جن سے ووٹ مانگنے جائیں اُنہیں ’’زندہ لاشیں‘‘ کہنے سے اجتناب برتیئے …ذرا دیکھئے تو سہی کہ95ہزار لاشوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
اور ساتھ ہی ساتھ برائے مہربانی میری شخصیت اور میرے رویے کو آپس میں خلط ملط مت کیجئے کیونکہ میری شخصیت میں خود ہوں اور میرا رویہ دراصل ’’آپ ‘‘ ہیں…!!!
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
------------------------------------------------------------------
دو کشتیوں کا مسافر!!.. لاؤڈ اسپیکر
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سہمی دیواروں کے ساتھ جُڑی ’’خوفزدہ ریاست‘‘میں ایک انتہائی طاقت ور شخص حکومت کرتا تھا،اُس نے یہ حکومت دہشت یا خوف کے بَل پر قائم نہیں کی تھی بلکہ لوگ اُس سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے کیونکہ وہ اُن کے دل کی باتوں کا سچا ترجمان تھا…دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی مقبولیت نے آسمان کی بَلندیوں کو چھولیا اور ہر خاص و عام نے اُسے اپنے مَن کا شہنشاہ مان لیا…لوگ اُس سے دیوانہ وار محبت کرنے لگے اوراُس پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے یوں تیار رہتے کہ گویا اِسی کی خاطر تو جی رہے ہوں…وہ بھی اِس والہانہ عقیدت کا جواب ہمیشہ اپنے پیار اور توجہ کے حسین امتزاج کے ساتھ ہی دیا کرتا تھا…دن گزرتے رہے لیکن اِس پر مرمٹنے والوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی…ایسا بھی نہیں تھا کہ سب ہی اُس کے مداح ہوں…ہاں مخالفین بھی تھے اور شدید مخالفین…اُن کے خیال میں یہ سب ایک دکھاوا،دھوکا اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں تھا ،وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ سادہ لوح عوام اپنی شفافیت کے سبب اُس کے جال میں پھنس چکے ہیں اور چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب سپنوں نے حقیقت کی دنیا کی صبح و شام چھین کر کذب و ریا کے اندھیروں کو اُن کامقدر ٹھہرادیا ہے…بہرکیف گرم و سردلہروں کے اِسی جوبن میں کئی سورج طوع ہوئے اور کئی راتیں ڈھل گئیں مگر وہ یونہی قلوب میں بسا رہا…پھر وقت کی ستم ظریفی نے ایک اوچھا وار کیااور وہ ’’اپنوں‘‘ کو چھوڑ کہیں دُور،بہت دور چلاگیا…خدشہ تھا کہ شاید اُس کی جان لے لی جائے چنانچہ اُس نے ریاست چھوڑنے ہی میں عافیت جانی اور سینکڑوں میل پَرے جاکر تعلق کی ڈور میں ایک مضبوط گانٹھ باندھ لی، ایک ایسی گانٹھ جس نے ’’رابطے کی ڈور‘‘ کو کبھی ٹوٹنے نہ دیا…
ایک دِن اُس نے اپنے سب سے پیارے،قریبی، قابلِ اعتبار،بھروسا مند اور ’’منظورِ نظر‘‘ کوبلا کر کہا کہ ’’میں چاہتا ہوں تم میری آنکھیںاور میرے کان بنو…میں تمہارے لئے ایک بہت خوبصورت کشتی تیار کررہا ہوں،تم اُس میں سوار ہو کر میری ریاست کے لوگوں کے درمیان جاکر رہو اور مجھے پَل پَل کی خبریں بھیجو تاکہ میں اُن کے درد کا مداواکرسکوں…’’منظورِ نظر‘‘ نے پہلے تو پس و پیش سے کام لیا،جُدائی کے غم کے عکاس جھوٹ موٹ کے آنسو بھی بہائے اورسینے سے چمٹ کر …نظریں جھکا کر …آہستگی سے نازبھرے انداز کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’آپ کیوں مجھے اپنے آپ سے الگ کرنا چاہتے ہیں ؟‘‘…حالانکہ دل زبان کا حامی نہیں تھا،کشتی میں بیٹھنے کی خواہش پگھلائے اور ’’پگلائے‘‘ دے رہی تھی، اُس کا جی تو چاہتا تھا کہ وہاں اُڑ کر پہنچے اور سیاہ و سفید کا مالک بن جائے مگر ’’طریقوں‘‘ سے واقف تھا اِس لئے نازبرداری سے کام لے رہا تھا…’’من کا شہنشاہ‘‘ اُس کی باتوں کو سچ سمجھ بیٹھااور اِس گمان کو پختہ یقین میں بدل لیا کہ ’’اِس سے بہتر انتخاب تو ممکن ہی نہیں ہے ‘‘…چنانچہ اُس نے حکماً اُسے کشتی میں سوار ہونے کو کہا جسے اُس نے رَد نہیں کیا…کہ خواہش ہی یہی تھی!!
اور پھر وہ ’’من کے شہنشاہ‘‘ کی کشتی میں سوار ہوکر ریاست آن پہنچا،چاہنے والوں نے اُس کا بسرو چشم استقبال کیا،عشائیوں،ظہرانوں ،استقبالیوں اور تعریفی کلمات نے اُس کے اندر سلگتی آگ کو بھڑکانے میں ہوا کا کردار ادا کیا اور وہ دھیرے دھیرے سب ہی کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا…یہاں ’’من کے شہنشاہ‘‘ کی کشتی کے علاوہ ’’فیصلہ سازوں‘‘ کی بھی ایک کشتی تھی جو پہلی کشتی سے زیادہ مضبوط،پائیدار،حَسین اور آرام دہ تھی، یہ ایک ایسی کشتی تھی جس کی تعمیر سب سے اعلیٰ اور اِ س کے سفر کی یادداشتیں انتہائی دل نشین تھیں…’’منظورِ نظر‘‘ کی زندگی کا اب ایک ہی مقصد تھا کہ وہ اِس کشتی کا بھی حقدار ٹھہرے اور اِس کے لئے وہ ’’ہر طرح کی خدمات‘‘ پیش کرنے کو تیار تھا…’’فیصلہ ساز‘‘تو چاہتے ہی یہی تھے کہ ’’منظورِ نظر‘‘ کو ’’اپنا‘‘ بنا کر ریاست میںموجود ’’انجانے خوف‘‘ کو دُور کریں اور ’’من کے شہنشاہ‘‘ کو ’’توازن‘‘ کا احساس دلائیں…لہٰذا اُنہوں نے اُسے اجازت دے دی کہ اُس کا جب جی چاہے وہ اُن کی کشتی میں سوار ہوجایا کرے اور سواری کا لطف اُٹھالیا کرے…’’منظورِ نظر‘‘ کی تو گویا دنیا ہی بدل گئی،اب اُس کا جب جی چاہتا وہ ’’من کے شہنشاہ‘‘ کی کشتی سے اُتر کر ’’فیصلہ سازوں‘‘ کی کشتی میں سیر کے لئے ’’دور‘‘ نکل جاتا…اِس دوران اِس نے یہ ’’ہنر‘‘ بھی سیکھ لیا تھا کہ دونوں کشتیوں کے مالکان کو کس طرح رام کرنا ہے اور وہ بڑی خوبی کے ساتھ اپنا یہ کردار ادا کرتا رہا…ہاں کبھی کبھی تنہائی میں اپنے ’’قریبی مشیروں‘‘ کے ساتھ بیٹھ کر وہ’’ڈبل رول‘‘کے قصوں کو مزے لے لے کر سنا یا بھی کرتا تھا اور اپنی ذہانت کے ’’قصیدے ‘‘ سن کر اندر ہی اندر پھولے نہ سماتا تھا(باہر سے اِ س لئے ظاہر نہیں کرتا تھا کہ کہیں کسی کو شک نہ ہوجائے)…
اُس نے اپنے دن و رات تقسیم کررکھے تھے، دن بھر وہ ’’فیصلہ سازوں‘‘ کے ساتھ رہتا اور رات کو ’’من کے شہنشاہ‘‘ سے گفتگو کرکے اُنہیں ’’وفاداریوں‘‘ کا یقین دلاتا…اور پھر اِسی طرح کئی برس بیت گئے…’’فیصلہ سازوں‘‘ نے اِس دوران متعدد سربراہان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ’’منظورِ نظر‘‘ کو اپنا ’’منظورِ نظر‘‘ بنا کر اُسی کے ساتھ کام کریں اور یہ اپنے نام کی طرح سب ہی کا’’منظورِ نظر ‘‘ بن کر اُن کے دل اور کشتی میں گھر کیے بیٹھا رہے…کچھ ایسا ہی ہوا…اور شاید ہوتاہی رہتا اگر ’’منظورِ نظر‘‘ کسی ’’ایک کشتی‘‘ کو ہمیشہ کے لئے منتخب کرلیتا…مگر چونکہ اُس کی دلی تمنا ہی یہی تھی کہ دونوں کشتیوں کا مسافر بن کر ’’طاقت کے وسیع سمندر‘‘ میں گشت کرتا رہے اِسی وجہ سے اِس سے چُوک ہوتی رہی اور ایک دن وہ ’’چوک‘‘ میں ہی رُسوا ہوگیا…
یہ قانونِ فطرت اور اُصولِ تاریخ ہے کہ مناظر یادداشت میں محفوظ رہ جاتے ہیں اور اگر ایک ہی منظر بار بار نگاہوں کے سامنے آتا رہے تو’’مضبوط حافظے‘‘ کے حامل اُسے پہچاننے میں دیر نہیں لگاتے…’’منظورِ نظر‘‘ نے دراصل ’’اپنا طریقۂ واردات‘‘ کبھی تبدیل نہیں کیا…’’من کے شہنشاہ‘‘ اور ’’فیصلہ سازوں‘‘ کو رام کرنے کے لئے اُس نے جتنے جملے اور پینترے رَٹ رکھے تھے اُن ہی کو بار بار آزماتا رہا اور ’’وقت‘‘ گزارتا رہا…لیکن دو کشتیوں میں ’’سوار‘‘ ہونے کی آرزو ہمیشہ آرزو ہی رہی ہے ،اُس نے کبھی بھی حقیقت کا روپ اختیار ہی نہیں کیا…وہ چاہتا تو یہی تھا کہ اُس کا ایک پاؤں ’’من کے شہنشاہ‘‘ اور دوسرا پاؤں ’’فیصلہ سازوں‘‘ کی کشتی میں رہے اور وہ’’نظاروں‘‘ کے مزے لوٹتا رہے مگر اِس ’’خطرناک کھیل‘‘ میں اصل امتحان’’توازن ‘‘ کا ہوتا ہے جسے برقرار رکھنا بہرحال نہایت ضروری ہے …’’منظورِ نظر‘‘ اپنی خواہشات کے عین مطابق ’’مسافر‘‘ تو بن گیا،جو چاہتا تھا اُسے حاصل تو کرلیا مگرحد سے زیادہ ’’خوداعتمادی‘‘ کے سبب توازن پر قابو نہ رکھ پایا…پہلے تو اُس کا وہ پاؤں لڑکھڑایا جو اُس نے ’’فیصلہ سازوں‘‘ کی کشتی میں ٹکا رکھا تھا اوربعد میں ’’من کے شہنشاہ‘‘ کی کشتی نے بھی اُس کا ساتھ چھوڑدیا…اُس نے بہت کوشش کی ،بڑی ہمت جُٹائی،مسلسل ہاتھ پاؤں مارے،اچھل کُود کی…مگر…جو ہونا تھا وہی ہوا اور وہ ایک ’’چھپاکے‘‘ سے پانی میں جاگِرا…اُسے توقع نہیں تھی،یہ اُمیدوں کے برخلاف ایک ایسا حادثہ تھا جس نے اُسے توڑ کر رکھ دیا…بَرسوں کی محنت خاک میں مل گئی،مدتوں سے بنائی ہوئی ’’شان‘‘شرمندگی کے پانی میں گھل کر رہ گئی …وہ پاؤں آگے اور پیچھے بڑھاتا،اُٹھاتا اور جماتا ہی رہ گیا لیکن دوکشتیوں کا سوار کبھی ساحل پر پہنچا ہے اور نہ ہی پہنچ سکے گا…آج وہ گہرے،خوفناک اور وسیع سمندر میں بے بسی سے ہاتھ ماررہا ہے لیکن اِس ڈوبتے کوبچانے کے لئے نہ’’من کے شہنشاہ‘‘ کی کشتی نظر آرہی ہے اور نا ہی’’فیصلہ سازوں‘‘ کی…!!!
To get more :
@AamirLiaquat
-------------------------------------------------------------------------
#JangColumn #LoudSpeaker "Phir NA246..." by @AamirLiaquat Husain
پھر این اے 246… لاؤڈ اسپیکر
SMS: #ALH(space)message & send to 8001
میرا مشورہ ہے کہ اب اِس بحث کو ہر سطح پر ختم ہوجانا چاہیے کہ این اے246سے کون جیتے گا؟جنہیں جیتنے کا ’’شوق ‘‘اور ’’جنون‘‘ہے وہ’’دونوں‘‘تو ایک ہونے کو تیارہی نہیں ہیں لہٰذا جس کو جیتنا ہے اور (اگرکسی کو ناگوار نہ گزرے )جیتنا ہی تھا،اُس کے لئے اب میدان اور بھی کھلا،واضح اور صاف ہوچلا ہے …میںنے اپنے گزشتہ کالم میں ’’ون ٹو تھری‘‘کا تذکرہ کرتے ہوئے اِشارہ دیا تھا کہ جس ہستی کے بھی ون ٹو تھری کہنے پر لوگ خاموش ہوگئے،انتخاب میں ووٹ اُسی کے اُمیدوار کو ملیں گے …سراج بھائی نے ون ٹو تھری کے بجائے جی تھری اور تھری جی پر اکتفا کیا البتہ الطاف بھائی نے گزرے دن بڑے دنوں کے بعد ’’ون ٹو تھری‘‘کہااور بڑے جوش سے سب خاموش بھی ہوگئے …وہ بھی ایک بار نہیں…دو بار!!…
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ میںموجودہ ایم کیوایم سے کوسوں دور ہوں اور مجھے کئی وجوہات کی بنا پر ایم کیوایم کی وکالت سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی میں اُن کا ’’فروغ‘‘یا ’’سیف‘‘ہوں کہ جنہیں پیارسے یہ کہا جائے کہ (نواں آیا ہے سوہنیا)مگرجن سیاسی جماعتوں نے یہ کہہ کر آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے کہ ’’کراچی سے خوف کی سیاست ختم ہوگئی ہے‘‘ وہ مجھے صرف اِتناہی سمجھادیں کہ ایک نشست کے حصول کی جنگ کے دوران یہ ’’نادیدہ خوف‘‘شکست کیسے کھا سکتا ہے ؟ اور یہ کیسا ’’چھچھورا خوف‘‘ ہے کہ جس کی دم ہما دم موجودگی کے باوجود معزز’’اُمیدوار ‘‘کھل کر نہاریاں کھارہے ہیں، وہ بھی مغز اور نلی کے ساتھ ، یہ تو پہلے ہی سے بلا کے ذہین و فطین ہیں پھر اِنہیں دستگیر کے ’’مغز‘‘سے ایسا کیا عشق ہوچلا ہے کہ مسلسل کھائے جارہے ہیں اور پھر ذرا ُن ’’نیّتوں‘‘کو بھی تو دیکھیے جو نہاری کے شوقین اُمیدوار اور اُن کی پَلٹن کو چین سے کھانے تک نہیں دیتے بلکہ سر پہ سوار چلّاتے رہتے ہیں تا کہ وہ چند نوالے کھاکر وہاں سے چلتے بنیں…ویسے مجھے ڈاکٹر ’’انصاف ابن میاںوالی‘‘نے بتلایا ہے کہ نہاری کھانے سے روکنے والے دراصل وہ نیک بندے ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ ایم کیوایم کے سامنے ’’واحد ڈٹے ہوئے اُمیدوار‘‘ کا Cholestrolبڑھ جائے اور وہ نتائج سے پہلے ہی Lipid Profileمیں بے ضابطگی کے سبب ’’ضبطِ اسپتال‘‘ ہوجائیں…ویسے اے خوف زدہ شہر کے بے خوف امیدوارو!کیا کریم آبادکے پل پر رات رات بھر چائے چکوری (کچوری نہیں) چل رہی ہے؟کیا خوب آزادانہ دورے ہورہے ہیں،بھرپور خطابات سے جلسے گرمائے جارہے ہیں،الزامات کی بوچھار ہے ،شکوک و شبہات کی بھرمار ہے ،کوئی لینڈ کروزر پر ’’رقصیلے کارکنوں‘‘کے ہجوم میں عزیز آباد و لیاقت آباد کی گلیوں میں ’’سکندرِ اعظم‘‘کی طرح گھوم رہا ہے تو کوئی ایم کیوایم کے ماضی کو انتخابی مہم کے نصاب کا ’’لازمی سبق‘‘پڑھ کر ہر چوک ،گلی اور محلے میں دہراتا پھر رہا ہے …اختلاف اپنی جگہ اوربے شک ایم کیوایم کی حرکتیں بھی اِ س قابل نہیں کہ نگاہیں چُرالی جائیں…مگر…مسلسل گرفتاریوں،بلا تسلسل مجرموں کے خلاف آپریشن اورلندن میں قانونی اُلجھنوں اور اندرونی اختلافات کے باوجود اِس جماعت کا یوں جمے رہنا اُس وقت تک ممکن ہی نہیں ہے جب تک کہ عوام کی بھرپور اور والہانہ محبت اِس میں شامل نہ ہو اور ناقدین کو اب یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ ایم کیوایم پر کوئی ’’ڈینٹ‘‘نہیں لگا بلکہ پھر سے نیا ’’پینٹ‘‘ہوگیا ہے …
میری کراچی کے ’’نئے ہم دردوں ‘‘ سے گزارش ہے کہ خوف کی فضا کا رونا رونے کے بجائے کم از کم اِس شہر میں اِتنا تو قیام کیا کیجئے جتنا انسان نماز میں ’’قیام‘‘کرتا ہے …آپ تو (معاذ اللہ) سلام پھیرتے ہی بنی گالہ نکل لیتے ہیں اور دعوے یہ فرماتے ہیںکہ ہم نے سحر توڑدیا،خوف نکال دیا،صرف ہم ہی تو ہیں جو اِن کا مقابلہ کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ …جنابِ من! آپ کی ’’گھومتی پھرتی یادداشت ‘‘آپ کو ہمیشہ دھوکا دیتی ہے کیونکہ یہ اِدھر اُدھر مٹر گشت کرتی پھرتی ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی ، جے یوپی،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جیسی بڑی اور عوام میں قابلِ احترام جماعتیں عرصے سے ایم کیوایم کا مقابلہ کررہی ہیں…آپ تو چاہتے ہی نہیں تھے کہNA 246میں ’’اچھا مقابلہ‘‘ ہو (کانٹے کا میں اِس لئے کہہ نہیں سکتا کیونکہ مجھے طبیبوں نے قہقہے لگانے سے منع کیا ہے )اور اِس کے لئے ضروری تھا کہ میدان جماعت اسلامی کے لئے خالی کردیا جائے …برسوں سے اِس نشست پر صرف جماعت اسلامی ہی دوسری پوزیشن حاصل کررہی ہے اور یہ صرف اُسی کا حق تھا کہ ون ٹو ون مقابلے میںدوسری جانب وہی کھڑی رہتی…لیکن آپ کو ’’نشست‘‘ سے دلچسپی ہے، ’’تبدیلی‘‘ سے نہیں، ضد سے پیار ہے اور مصلحت سے بیر…اب کیا فرمائیے گا اُس جلسے کے بارے میں جس نے لیاقت آباد فلائی اوور کو تاحدِ نگاہ انسانی سَروں سے بھر کے ’’Election is over‘‘ کا پیغام دے دیا…جب آپ پہلے دن سے جارحانہ رویہ اختیار کریں گے،جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش اور نویں دن جناح گراؤنڈ کا کھلونا مانگیں گے،لہجوں میں تُرشی،زبان میں سختی اور آنکھوں میں نفرت لئے ووٹ مانگنے جائیں گے تو 80فیصد مہاجروں کے علاقے میں کون سنے گا بھائی؟…جماعت اسلامی تو آج تک جناح گراؤنڈ پر نہیں پھیلی؟،پیپلز پارٹی نے تو کبھی بھی وہاں میدان سجانے کا نہیں سوچا، شاہ احمد نورانی جیسی محترم ترین ہستی نے جو کہ ایم کیوایم کے سب سے بڑے اور اصولی نقاد تھے کبھی یہ نہیں چاہا کہ کسی کے گڑھ میں جاکر امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں؟کیاآپ کے خیال میں وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے؟یقینا کر سکتے تھے لیکن وہ بالغ النظر،باشعور اور حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے اُن عظیم قائدین میں سے تھے جنہیں اختلاف کرنے کا بھی سلیقہ آتا تھا،اُن سے زیادہ سخت مگر اخلاق کے دائرے میں گردش کرتی ہوئی زبان کسی اور نے ایم کیوایم کے خلاف استعمال ہی نہیں کی…اور کسی بھی سطح پر آج بھی اُن کے احترام میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ عبداللہ شاہ غازی ؒ کے مزارِ مبارک کے احاطے میں اُن کی مرقدِ پُرنور اِس احساس کے ساتھ گواہ ہے کہ نورانی میاں یہیں اِسی شہر میں ہیں اور اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہیں …اِسی طرح قاضی حسین احمد جیسی عظیم ہستی کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے لچر بازی کا جواب لچر بازی سے نہیں دیا بلکہ مخالفت کرتے ہوئے اُن اِقدار کا خیال رکھا جسے آپ کے’’ لکھے پڑھے‘‘ نوجوانTwitterاورfacebookپر فٹبال بنا کر کھیلتے ہیں اور اپنے اپنے خاندانوں سے شناسائی بھی کرادیتے ہیں…
الیکشن اِس طرح نہیں لڑے جاتے حضور!انتخاب میں نے بھی لڑا ہے اور کراچی کے مشکل ترین حلقے سے لڑا ہے ،یقینا اِس میں اُس جماعت کی محنت اور اُس کے قائد کی مقبولیت کا حصہ80فیصد ہوگا مگر خود ایم کیوایم کے کارکنان گواہ ہیں کہ میں نے گھر گھر جاکر ووٹ مانگا تھا،دن رات ایک کردیا تھا اور اُس کے بعد اپنی پارٹی کے سخت ڈسپلن اور احتساب کی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے علاقے میں ترقیاتی کام کرائے،سڑکیں بنوائیں، روزانہ ایک ایک گھنٹہ اُن کے درمیان بیٹھ کر اُن کے مسائل سنے…صرف نہاریاں کھائی نہیں بلکہ اُن کے لئے پکوا کر اُنہیںکھلائیں بھی…علاقہ غریب تھا ،اِس لئے اپنی چھوٹی سی Santro کارکوعلاقے سے باہر پارک کر کے کہ کہیں میرے حلقے کے لوگوں کا دل نہ دکھے موٹر سائیکل پر کنوینسنگ کرتا تھایا پھر علاقے کے ہی ذمے داران کی گاڑی میں سوار ہوجاتا تھا…انتخابی مہم کے دوران خوشیوں میں شریک ہونا،انتقال پر تعزیت کے لئے جانا،کسی کے بچے کی پیدائش پر مبارک باد کے لئے چلے جانا اور لوگو ں کے درمیان زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا ہی اُمیدوار کو ’’مقبول ‘‘بناتا ہے …روزانہ الزامات لگانے اور ڈیفنس سے عزیز آباد تک لینڈ کروزر میں رعب و داب کے ساتھEntryمارنے سے انتخاب نہیں جیتا جاتا بھولے بادشاہ!
چلئے ایک کام کیجیے …خان صاحب اور بھابی جان سے کہیے کہ کلفٹن کے ریسٹورنٹ میں بیف اسٹیک اور سی فوڈ تناول کرنے کے بجائے ، حسین آباد کی چانپیں،کراچی حلیم،ٹھیلے کی فیرنی،کھوکھے کا پان اور سلیم قادر انکل کاگولہ گنڈا کھالیں…ممکن ہے کہ زیادہ ووٹ پڑجائیں!!
--------------------------------------------------------------------------
#JangColumn #LoudSpeaker "Saudia Arab ko Tanha na Chora Jay..." by @AamirLiaquat Husain
سعودی عرب کو تنہانہ چھوڑا جائے! … لاؤڈ اسپیکر
SMS: #ALH (space) message & send to 8001
aamir.liaquat@geo.tv
Twitter: @AamirLiaquat
میں حیران ہوں کہ ہماری پارلیمینٹ نے یہ کیسی قراردار منظور کی ہے ؟ ایک ایسا ملک جس نے ہر کڑے وقت میں ہمارا ساتھ دیاہو،معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو،جہاں پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت روزگار کی خاطر وطن سے دُور رہ کر بھی وطن کی کمی محسوس نہ کرتی ہو اور اُس سرزمیں کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتی ہو اُسے ایک ایسے مشکل وقت میں تنہا چھوڑدینا کس قسم کی مصلحت اور کون سی سفارت کاری ہے ؟…اِس پروپیگنڈے میں کوئی دَم نہیں ہے کہ وہاں فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں، یہ ایک کھلی بغاوت ہے اور اِس بغاوت کے اثرات اگر حرمین شریفین تک پہنچ گئے تو خون کے دریا کے سوا مجھے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ہے…نجران ،جازان اور عسیر ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے ہی اُس سرزمین عرب کا حصہ رہے ہیں جس میں یقیناً یمن شامل نہیں تھا بلکہ یمن ایک الگ علاقے کے نام سے معروف تھا اور بعد میں یہ سیدنا فاروقِ اعظم کے زمانے میں ایک علیحدہ اسلامی صوبہ قراردیا گیا لہٰذا بعض افراد اپنی یہ ’’دانش فروشی‘‘ بند فرمادیں تو بہتر ہوگا کہ نجران،جازان یا عسیر پر کوئی غاصبانہ قبضہ ہے بلکہ اُن کی تسلی کے لئے صحیح بخاری میں نجران کے عیسائیوں سے مباہلے کی طویل حدیث موجود ہے جس کے دوران ’’آیات مباہلہ‘‘ نازل ہوئیں اور اُمت نے یہ جانا کہ ’’پنجتن‘‘ کون ہیں…
یقیناً ہر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح مجھے بھی سعودی حکومت کی بہت ساری ’’حرکتوں‘‘ سے شدید اختلاف ہے، مجھے جنت البقیع کے انہدام پر تکلیف ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مکانات کے نشانات مٹادینے پر درد ہے ،مقدس مقامات کے احترام میں کوتاہی برتنے پر غصہ ہے ،عقیدت کے ہر انداز کو ’’شرک‘‘ اور ’’بدعت‘‘ سے تعبیر کرنے پر ناراضگی ہے …مگر …مجھے اُس خطے سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر پیار ہے،اِس سرزمین کا کوئی بھی مقام ایسا نہیں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاک قدموں نے اپنے پُر تقدیس نشانات چھوڑ کراُسے ارضِ عظیم کااعزاز نہ بخشا ہو…پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حوثی باغیوں کی نادانی سے بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے سرزمینِ عرب تک جاپہنچیں اورہم صرف مذمت یا اظہارِ یکجہتی کی قراردادوں پر ہی اکتفا کئے بیٹھے رہیں…تیل کا جھگڑا ،اقتدار کی خواہش،برتری کے سپنے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی تمنا…بس اِن ہی کے درمیان کہیں یمن کا تنازع چھپا ہوا ہے …البتہ تاریخ سے نابَلد اور حقائق سے کوسوں دُور جنہیں ٹیلی وژن پر ’’دراز گفتگو‘‘ اور کالم نویسی میں ’’دانشوری کے رنگ ‘‘ بکھیرنے کا شوق ہے وہ ایسی ایسی کوڑیاں ڈھونڈ کر لارہے ہیں کہ جن کے سامنے خزائن عالم بھی ہیچ ہیں…مثال کے طور پر ’’اگر ہم نے سعودی عرب کی حمایت کی تو پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑک اُٹھے گی‘‘ یا ’’یمن کے تنازع مسلکی ہے اور ہمیں اِس سے دُور رہنا چاہئے‘‘…’’حوثی باغیوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور وہ تو صرف جمہوریت چاہتے ہیں‘‘… ’’پاکستان کو یمن کی آگ میں نہیں کودنا چاہئے کیونکہ ایران سے ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں گے‘‘… ’’اگر پاکستان نے سعودیہ کا ساتھ دیا توخدشہ ہے کہ ایران ناراض ہوجائے گا‘‘…وغیرہ وغیرہ!!
پہلے تو سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ یمن کے حوثی قبائل مسلکی اعتبار سے شیعوں کے ’’زیدیہ گروپ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اثنا عشری شیعہ نہیں یعنی 12ائمہ کرام پر اِن کا اعتقاد نہیں جبکہ ایران کی جانب سے ایک بار بھی یہ تاثر نہیں دیاگیا ہے کہ وہ حوثی قبائل کی حمایت کررہا ہے …یہ ایک خالصتاً طاقت کے حصول کی خاطر کی جانے والی منظم بغاوت ہے اور حوثیوں کو بدلتی ہوئی علاقائی صورتِ حال میں ایران کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اپنے لئے معاون و مددگار نظر آرہا ہے اِسی لئے وہ پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حملے کررہے ہیں حالانکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے…ایران اور سعودی عرب کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئیں کیونکہ دونوں ملکوں کو اپنی اہمیت اور خطے میں موجود مسلمانوں کے جذبات کا احساس ہے اِسی لئے وہ ’’دَرپردہ‘‘ تو ’’مقاصد کی تکمیل‘‘ کے لئے ’’کارروائیاں‘‘ جاری رکھیں گے مگر ’’ظاہر‘‘ ہوکر لڑنے سے ہمیشہ اجتناب ہی بَرتیں گے کیونکہ اِس صورت میں یقیناً اسلامی دنیا واضح طور پر تقسیم ہوجائے گی…میں یہ دلیل بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر پاکستان سعودی عرب کی حمایت کا کھل کر اعلان کرتا ہے تو ایران کیوں ناراض ہوجائے گا؟…کیا خدانخواستہ ایران اِس بغاوت میں ملوث ہے؟…کیا ایران کی جانب سے باغیوں کو رسد فراہم کی جارہی ہے ؟…کیا ایران چاہتا ہے کہ سعودی عرب کو غیر مستحکم کیا جائے ؟…ظاہراً توبے شک ایسا نہیں ہے اور اللہ نے ہمیں ظاہر کا مکلف بنایا ہے باطن کا نہیں!! کسی کے دِل میں کیا ہے اورکس کی کیا نیت ہے اِس کھوج اور تجسس میں پڑنے کے بجاے گمان اگر اچھے رکھے جائیں تو زیادہ بہتر ہے …مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اُس کے رسول کو راضی کرنے کی دوا لینے کے بجائے ’’سفارت خانوں‘‘ کو خوش کرنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور اِسی وجہ سے آنکھیں مکمل بند ہیں،کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہیں اور ہونٹوں پر تالے لگارکھے ہیں…اگر سعودی عرب کی حمایت پاکستان کےلئے اِس قدر دشوار اور خطرناک ہے تو ترکی نے اپنا بحری بیڑہ سعودی عرب کی مدد کے لئے کیوں روانہ کیا؟ افغانستان نے کھل کر حمایت کا اعلان کیوں کیا ہے ؟کیا ترکی اور افغانستان میں سنّی اور شیعہ آباد نہیں؟وہاں فرقہ واریت کا خطرہ کیوں پیدا نہیں ہورہا؟ مفروضوں کی بنیاد پر وہاں کے ’’دانش ور‘‘ تحریرو تقریر میں کیوں نہیں چلّا رہے؟ترکی کا تو سعودی عرب کے ساتھ متاثر کن تاریخی پس منظر بھی نہیں ہے بلکہ سعودی ہمیشہ سے ہی ترکوں سے شاکی رہے ہیں اور ترک روایتاً ایران کے قریب رہے ہیں پھر یہ اچانک ترکی کو کیا ہوگیا؟
کیا وہ اِتنا ’’غریب ملک‘‘ ہے کہ اُسے بھی سعودیوں نے ’’تیل سے نہلا کر‘‘ اپنا بنالیا ہے ؟
مجھے کوئی اِس سوال کا جواب بھی تو دے کہ نائن الیون سے قبل جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی اور جسے سعودی عرب اور پاکستان نے تسلیم کرکھا تھااوردوسری جانب شمالی اتحاد کو بھارت اور ایران کی کھلی حمایت حاصل تھی تو اُس وقت کسی نے یہ طوفان کیوں نہیں اُٹھایا کہ ایران کے اِس عمل سے ’’فرقہ وارانہ فساد‘‘ کا اندیشہ ہے اوربھارت کا بھی اُسی اتحاد کی جانب جھکاؤ جسے ایران کی حمایت حاصل ہے درحقیقت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے…سچ تو یہ ہے کہ ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جس طرح سعوی عرب اور ایران اپنی اپنی پالیسیاں وضع کرنے میں آزاد ہیں اُسی طرح پاکستان کو بھی تاریخی اور زمینی حقائق سامنے رکھ کر اور عوام کی اُمنگوں کو ٹھیس نہ پہنچاتے ہوئے قوم کی ترجمان پالیسی کا اعلان کرنا چاہئے جو بدقسمتی سے اب تک نہیں ہوا ہے …سب قومیں اپنے اپنے وطن سے محبت کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں کچھ پالیسی ساز سعودی عرب سے محبت کرتے ہیں اور کچھ ایران سے ! براہِ کرم پاکستان سے محبت کیجئے اور پاکستانی بن کر سوچئے تو شاید احساس ہو کہ ہم نے ایک ’’مبہم قرارداد ‘‘ منظور کر کے اپنے دوست ملک کو کس قدر مایوس کیا ہے …ہمارا یہ اولین فرض ہے کہ یمن میں حوثیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے تمام تَر اختلافات اور نظریاتی فرق کے باوجود سعودی عرب کا ساتھ دیں…مسئلہ صرف صنعا پر حکومت کا نہیں ہے بلکہ صنعا تو صرف ایک ’’سنگِ میل ‘‘ ہے اصل نگاہ تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر ہے …ظاہر ہے کہ امریکہ،بھارت اور برطانیہ کی ملازمت کرنے والے ہمارے بعض دانشور یہ کیوں چاہیں گے کہ پاکستان بھی اُس مسلم بلاک میں شامل ہو جو سعودی عرب کا دفاع کرے کیونکہ اُن کی تو اولین خواہش ہے کہ مسلم ممالک کا اتحاد بننے کے بجائے سعودی عرب کواِس قدر تنہا کردیاجائے کہ امریکہ اور برطانیہ سعودی عرب کے اتحادی بنیں اور اپنی سرزمین کے تحفظ کے ’’سراب‘‘ میں مضطرب سعودی عرب کا بھی وہی حشر ہو جو عراق و کویت کا ہوا،جسے تیونس نے بھگتا،لیبیا نے چکھا،مصر نہ سہا اور یہودی بالآخر دوبارہ خیبر تک پہنچنے کی اپنی قسم پوری کرلیں…!!
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
--------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
-------------
No comments:
Post a Comment