Thursday, 9 April 2015

Jang Column LoudSpeaker "NA-246 ..." by Aamir Liaquat Husain


این اے 246 ؟… لاؤڈ اسپیکر ، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین


این اے246نے اُمیدواروں کی نیندیں چرائی ہیں یا نہیںاِس بارے میں تویقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا البتہ عوام اور میڈیا یقینا بے خوابی کے مرض میں مبتلاہو چکے ہیں اور خبریں ہیں کہ روز نت نئے ڈھنگ سے اِٹھلاتی اور اِتراتی چلی آتی ہیں…بھئی ایک ہے حقیقت اور دوجا ہے خواب، جنہوں نے خواب دیکھا ہے وہ اُسے حقیقت میں بدلنے کی خاطربھرپور زور لگا رہے ہیں یہ اور بات ہے کہ ’’کچھ نکل نہیں رہا‘‘ اور جن کے لئے یہ حقیقت ہے وہ اپنے روایتی انداز سے حریفوں کو ہر طرح سے ’’تھکانے ‘‘ میں مصروف ہیں…حریف کبھی تو ’’آگ بگولہ‘‘ ہوجاتے ہیں اور کبھی گورنر ہاؤس جاکر جناح گراؤنڈ میں شہدا کی یادگارسے منسوب شہدائے ایم کیوایم کو ’’اپنے بچے‘‘ کہہ کر اپنے ہی حامیوں کو انگشت بدنداں کردیتے ہیں حالانکہ برابر میں کھڑے گورنر کی ’’خفیف مسکراہٹ‘‘ چلا چلا کر کہہ رہی ہوتی ہے ’’کیسا دیا‘‘!!ویسے تو گورنر صاحب کو بھی کسی نے کچھ ایسا ہی دیا ہے کہ سوتے جاگتے اچانک اُن کے کانوں میں ایک ہی آواز گونجتی ہے کہ ’’کیسا دیا؟‘‘…لیکن ہمیں اِس سے کوئی سَروکار نہیں ہونا چاہئےحقائق کو سمجھنا چاہئے اور مبصر نما پنڈتوں کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ NA246کی نشست ایم کیو ایم سے یوں چھین لینا کہ جیسے بکری کے بچے کو بھاگ کر پکڑلیا ایک تصوراتی فکر ہے جس کی سچے مناظر میں کوئی جگہ نہیں…تحریک انصاف کے اُمیدوار کو ایسا ’’ہوا‘‘ بنا کر پیش کیا جارہا ہے کہ آج سے پہلے اِس شہر میں گویا ایم کیوایم کا کسی نے مقابلہ کیا ہی نہیں تھا…مجھے حیرت ہوتی ہے اُن ’’بزرگ صحافیوں‘‘ اور ’’بوڑھے تجزیہ نگاروں‘‘ پر جنہوں نے جماعتِ اسلامی ،جے یو پی ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو یکسر فراموش کرڈالا…پروفیسر عبدالغفور احمد جیسے اصول پسند انسان،مولانا شاہ احمد نورانی جیسی بے مثال ہستی،اصغر خان جیسے سچے سیاستدان، پروفیسر عثمان رمز جیسے دانشور،تاج حیدر جیسے روشن خیال،نبی داد خان(این ڈی خان) جیسے وفادار، عبدالستار افغانی جیسے باکردار اور اعجاز شفیع جیسے نابغۂ روزگار، اِن سب ہی نے اور اِن جیسے دیگر کئی معتبر سیاست دانوں نے ہمیشہ ایم کیوایم کا مقابلہ کیا اور ڈٹے رہے، علاقوں میں مہم بھی چلائی، دفاتر کا افتتاح کیا،لوگوں سے ملاقاتیں کیں، چھوٹے بڑے جلسے کئے اور شکست کے باوجود کراچی پر اپنے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے… بالخصوص جماعت اسلامی، حالانکہ میں اِس کے ناقدین میں سے ہوں تاہم جو سچ ہے وہ سچ ہے …البتہ آج نئی نسل کے سامنے پی ٹی آئی کویہ کہہ کر پیش کیا جارہا ہے کہ گویاایم کیوایم کے سامنے یہی ایک واحد جماعت ہے جو اپنا اُمیدوار سامنے لائی ہے …سوشل میڈیا پر اِس ’’مسیحا جماعت‘‘ کے بارے میں ایک عجیب و غریب مہم چلائی جارہی ہے …دستگیرکالونی میں اِن کے ’’نہاری کھانے‘‘ کے ’’حادثے ‘‘کو کچھ اِس طرح بیان کیاجارہا ہے کہ جیسے پہلی بار کسی نے ’’نہاری‘‘ نہیں بلکہ ’’نہاکر‘‘ کچھ کھایا ہو …حالانکہ یہ ایک معمول کا عمل ہے کہ جس علاقے میں انتخاب لڑا جاتا ہے وہاں کے بازاروں،گھروں اور محلے داروں سے اِسی طرح ملاقاتیں کی جاتی ہیں،قریبی ہوٹلوں میں کھانا کھایا جاتا ہے ،مساجد میں نماز پڑھی جاتی ہے ،چارپائیوں پر بیٹھ کر کچہری لگائی جاتی ہے اور انتخاب تک لوگوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ’’ہم آپ کے درمیان ہی موجود رہیں گے‘‘!!… پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایم کیوایم کیا ہے ؟کیا اِس کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں؟کیا اِس کے اُمیدوار تمام انتخابات دھاندلی سے ہی جیت کر آتے ہیں؟ اِنہیں کبھی عوام نے ووٹ ہی نہیں دیئے؟اِن کے جلسوں میں لوگوں کا جمع ہونا ’’نظروں کا دھوکا‘‘ یا ’’سراب‘‘ ہے یا پھر ہزاروں لوگوں کو ’’جبر‘‘ سے جمع کیا جاتا ہے (جو کہ ایک انتہائی فضول دلیل ہے) ،کیا اِن کا کوئی تنظیمی نظام نہیں؟اِن کے کارکن کراچی کے بجائے کیاملک کے دیگر حصوں سے آتے ہیں؟اِن کی قیادت کیا اپنے ورکرز کے ساتھ رابطے میں نہیں رہتی؟اور چلیے مان لیا کہ پورے شہر پر ایم کیوایم کادعویٔ حق ملکیت غلط ہے جس کی واضح مثال NA250ہے لیکنNA246پر یہ دعویٰ کچھ غلط بھی نہیں ہے…بے شک پی ٹی آئی یہاں سے ووٹ لے گی اور ضرور لے گی اور وہ پہلی جماعت نہیں ہے جو یہاں عوام کے ایک حصے کو اپنی جانب راغب کرے گی،اِس سے پہلے جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی کے اُمیدوار بھی یہاں سے ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی والے کچھ زیادہ ووٹ لے لیں مگر حقیقت پسندانہ نتیجہ یہی ہے کہ یہاں سے ایم کیوایم کو ہرانامشکل ہی نہیں فی الوقت ناممکن ہے…پڑھنے والے یہ ذہن میں رکھیں کہ میں اب ایک غیر جانبدارانہ زندگی گزار رہا ہوں،کبھی میں بھی ایم کیوایم کا حصہ ہوا کرتا تھا پَر اب نہیں ہوں…البتہ میرے نزدیک سچائی سے منہ موڑنا صرف اُس کے ’’انکار‘‘ کے مترادف نہیں ہوتا بلکہ بعض حالتوں میں’’خوف‘‘ کی علامت بھی ہوا کرتا ہے …کسی کے آبائی حلقے میں جاکر اُسے چیلنج کرنا بلاشبہ ایک جرأت مندانہ فکر اور صحت مندانہ جمہوری اقدام ہے مگر ’’پذیرائی‘‘ کی مخصوص آوازوں کو نقارۂ فتح سمجھ لینااپنی ذات سے جانتے بوجھتے ایک بے ہودہ مذاق کے سوا اورکچھ نہیں…2013کے انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے NA246میں جھانک کر بھی کبھی نہیں دیکھا جبکہ ایم کیوایم کا یہاں پورا ’’مرکز‘‘ موجود ہے…نفسیاتی طور پر بھی علاقہ مکین اِس لئے ’’تبدیلی‘‘ کا ساتھ نہیں دیں گے کیونکہ بقیہ ساری نشستیں تو ایم کیوایم ہی کی ہیں اِس ایک نشست کے چلے جانے سے روز صبح گھر سے موٹر سائیکل پر کام کے لئے نکلنے والے منے کے ابو کو کیا فائدہ؟پھردونوں ایم پی اے ایم کیوایم کے ہیں،اگر ایک رکن قومی اسمبلی پی ٹی آئی کا ہو بھی گیا تو کیا علاقے کی قسمت بدل جائے گی؟…کشیدگی کی فضا میں مل جل کر کام کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ ترقیاتی فنڈز کا استعمال تو بہرحال باہمی مشاورت سے ممکن ہے لیکن یہاں تو مشاورت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا…اِس کے علاوہ پی ٹی آئی کا تو ابھی یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ وہ اسمبلیوں میں واپس جائے گی یا نہیں لہٰذا جس جماعت کا اسمبلی میں جانا ہی طے نہیں اُسے محض اِس لئے ووٹ پڑ جائیں کہ وہ کراچی کی سیاست کو بدلنا چاہتی ہے ایک ایسا جواب ہے جس سے ممتحن کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا …اِس کے علاوہ بھی ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو بے شک فطری بھی ہیں اور فکری بھی!…یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ 2002میں ایم کیوایم کو صرف ’’مذہبی اتحاد‘‘نے ہی چیلنج کیا تھا اور تب ہی اُس کے ووٹ بینک کو دھچکا لگا تھا …اِسی طرح پی ٹی آئی بھی ایک ایسی ہی لبرل جماعت ہے جسے مذہبی طبقہ اُسی نگاہ سے دیکھتا ہے جس نگاہ سے ایم کیوایم کو دیکھا جاتا ہے چنانچہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ درود و سلام یا ختم بخاری والے یا پھرمجالس کے علمبردار اوراحادیث کے طلبگار اِس نئی تحریک سے کوئی ’’انصاف‘‘ کرسکیں …میڈیا کو بھی چاہئے کہ ایک ’’مصنوعی فضا‘‘کے خالق بن کر ہوا کے دوش پر چیخ و پکارکو فروغ دینے کے بجائے اطمینان کی مونگ پھلیاں کھائیں اور جو نتائج سامنے آئیں اُنہیں ’’اگر مگر‘‘ کے ’’سائنسی نظریات ‘‘ کا تڑکا لگائے بنا عوام تک ’’جہاں سے جیسا حاصل ہوا‘‘ کی بنیاد پر امانتاً پہنچادیں…بدقسمتی سے اینکر حضرات کی اکثریت نے اِسے ’’کانٹے‘‘ کا مقابلہ بنادیا ہے حالانکہ یہ صرف ایک انتخابی معرکہ ہے جہاں پی ٹی آئی کو وہی پوزیشن حاصل ہے جو ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کو حاصل تھی،مبصرین پیش گوئی کرتے ہوئے اُس وقت بھی یہ بھول گئے تھے کہ لیگ میچز سے سیمی فائنل تک ناقابلِ شکست نیوزی لینڈ کا مقابلہ اب آسٹریلیا سے نہیں بلکہ ’’ہوم گراؤنڈ‘‘ اور ’’ہوم کراؤڈ‘‘ سے ہورہا ہے …اورکرکٹ میں تو شاید ’’ہوم کراؤڈ‘‘ کو اِتنی فوقیت حاصل نہ ہو مگر انتخابات میں ’’ہوم کراؤڈ‘‘ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے !!ایک ادنیٰ تجزیہ کار کی حیثیت سے میرا سب ہی کو مشورہ ہوگا کہ ’’زمینی حقائق‘‘ کو فراموش کرکے تبصرہ کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ صرف ’’رپورٹنگ‘‘ کی جائے جس میں پیش آنے والے واقعات کہیں نہ کہیں سب ہی کے نظریات کی تسکین کا باعث بن ہی جائیں گے …!!

SMS: #ALH (space) message & send to 8001
www.aamirliaquat.com Twitter: @AamirLiaquat
aamir.liaquat@geo.tv

No comments:

Post a Comment